ETV Bharat / state

Women Artisans Of Kashmir: کشمیر میں تلہ سوزی سے وابستہ خواتین دستکار نا امیدی کے دلدل میں کیوں؟ - خواتین دستکاروں نے بھی اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لا یا ہے

بڈگام کے ہاورہ کرمشور سے تعلق رکھنے والی محمودہ بانو گذشتہ بیس برسوں سے تلہ سوزی کا کام کرکے نہ صرف اپنی روزی روٹی کی سبیل کر رہی ہیں بلکہ وادی کی اس منفرد دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے بھی ہیں۔ یکن ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی اور کاروباریوں کی طرف سے کم اجرت ملنے سے وہ دل شکستہ بھی ہیں۔ Women artisans associated with tilla work

کشمیر میں تلہ سوزی سے وابستہ خواتین دستکار نا امیدی کے دلدل میں کیوں؟
کشمیر میں تلہ سوزی سے وابستہ خواتین دستکار نا امیدی کے دلدل میں کیوں؟
author img

By

Published : Apr 20, 2022, 4:53 PM IST

سرینگر: وادی کشمیر میں مرد دستکاروں کی طرح خواتین دستکاروں نے بھی اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مختلف دم توڑتی ہوئی دستکاریوں کو زندہ رکھا ہے۔ تاہم ان خواتین دستکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی اور کاروباریوں کی لوٹ کھسوٹ ان کی حوصلہ شکنی کا موجب بن رہی ہے اور وہ بھی اب کسب معاش کے لئے دوسرے وسائل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔Women artisans Of Kashmir

وسطی ضلع بڈگام کے ہاورہ کرمشور سے تعلق رکھنے والی محمودہ بانو گذشتہ بیس برسوں سے تلہ سوزی کا کام کرکے نہ صرف اپنی روزی روٹی کی سبیل کر رہی ہیں بلکہ وادی کی اس منفرد دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے بھی ہے۔ ان کے ساتھ قریب تیس پڑھی لکھی لڑکیاں بھی یہ کام کرکے اپنے گھر کے اخراجات کی بھرپائی کے لئے اپنے والدین کا تھوڑا بہت ہاتھ بٹاتی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی اور بیوپاریوں کی طرف سے کم اجرت ملنے سے وہ دل شکستہ بھی ہیں۔Women artisans associated with tilla work

محمودہ نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ میرے ہاتھ کی تلہ سوزی کو بیوپاری بہت پسند کرتے ہیں اور خریدار بھی اس کے فریفتہ ہیں لیکن اجرت بہت کم ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں گذشتہ قریب بیس برسوں سے یہ کام کرتی ہوں اور میرے ساتھ قریب تیس لڑکیاں جڑی ہوئی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ہمیں بہت کم اجرت ملتی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا: ’کاروباری بہت کم اجرت دیتے ہیں ان کو بھی کمانا ہے لیکن ہم بھی بھر پور اجرت کے حقدار ہیں جو ہمیں نہیں ملتی ہے‘۔ Women Artisans Associated with different embroidery forms

موصوفہ نے کہا کہ وادی میں تلہ سوزی کی مانگ میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب صرف دلہنوں کے کپڑوں پر ہی تلہ سوزی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی مختلف ڈیزائن تیار کرتے ہیں جن کی کافی مانگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پھیرن (کشمیر کا روایتی لباس) پر پانچ تولہ تلہ سوزی کا کام کرنے کے لئے کم سے کم ایک ماہ لگ جاتا ہے اور پھر ہمیں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپیے مزدوری ملتے ہیں جس میں سے تلہ وغیرہ کا خرچہ خود ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

محمودہ کا ماننا ہے کہ ہمارے کام سے بیوپاری اچھی کمائی کرتے ہیں جبکہ ہمارا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بھی ہماری کوئی خاص مدد نہیں کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا: ’کئی بار متعلقہ حکام ہمارے پاس آئے ہم سے کئی وعدے کئے لیکن پھر وہ پورے نہیں ہوئے‘۔انہوں نے کہا کہ کم اجرت ملنے کے باعث اب کئی خواتین دستکار اس کام سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہیں اور روز گار کے لئے دوسرے وسائل تلاش کر رہی ہیں۔women preserving heritage crafts of Kashmir

موصوف خاتون دستکار نے کہا کہ ہم وادی کی ایک خاص دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس کے لئے یہاں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہماری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ تلہ سوزی سے بالخصوص خواتین کاریگر اچھا روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ان کی طرف توجہ دے کر ان کو در پیش مسائل کو حل کرے۔

ادھرماہرین کا ماننا ہے کہ دستکاروں کی حوصلہ شکنی سے کئی دستکاریوں کا وجود ختم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔ ظہور حسین نامی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ہمارے دستکار کشمیری ثقافت کے ایک اہم جز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی حوصلہ شکنی سے نہ صرف ایک فن دفن ہوجائے گا بلکہ ہماری شناخت کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔

یہ بھی پڑھیں : Apple Valley Hutmura: ایپل ویلی 'ہُٹمورہ' ان دنوں تجارت کا مرکز

سرینگر: وادی کشمیر میں مرد دستکاروں کی طرح خواتین دستکاروں نے بھی اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مختلف دم توڑتی ہوئی دستکاریوں کو زندہ رکھا ہے۔ تاہم ان خواتین دستکاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی اور کاروباریوں کی لوٹ کھسوٹ ان کی حوصلہ شکنی کا موجب بن رہی ہے اور وہ بھی اب کسب معاش کے لئے دوسرے وسائل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔Women artisans Of Kashmir

وسطی ضلع بڈگام کے ہاورہ کرمشور سے تعلق رکھنے والی محمودہ بانو گذشتہ بیس برسوں سے تلہ سوزی کا کام کرکے نہ صرف اپنی روزی روٹی کی سبیل کر رہی ہیں بلکہ وادی کی اس منفرد دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے بھی ہے۔ ان کے ساتھ قریب تیس پڑھی لکھی لڑکیاں بھی یہ کام کرکے اپنے گھر کے اخراجات کی بھرپائی کے لئے اپنے والدین کا تھوڑا بہت ہاتھ بٹاتی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی اور بیوپاریوں کی طرف سے کم اجرت ملنے سے وہ دل شکستہ بھی ہیں۔Women artisans associated with tilla work

محمودہ نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ میرے ہاتھ کی تلہ سوزی کو بیوپاری بہت پسند کرتے ہیں اور خریدار بھی اس کے فریفتہ ہیں لیکن اجرت بہت کم ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں گذشتہ قریب بیس برسوں سے یہ کام کرتی ہوں اور میرے ساتھ قریب تیس لڑکیاں جڑی ہوئی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن ہمیں بہت کم اجرت ملتی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا: ’کاروباری بہت کم اجرت دیتے ہیں ان کو بھی کمانا ہے لیکن ہم بھی بھر پور اجرت کے حقدار ہیں جو ہمیں نہیں ملتی ہے‘۔ Women Artisans Associated with different embroidery forms

موصوفہ نے کہا کہ وادی میں تلہ سوزی کی مانگ میں کوئی کمی نہیں ہے بلکہ اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اب صرف دلہنوں کے کپڑوں پر ہی تلہ سوزی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی مختلف ڈیزائن تیار کرتے ہیں جن کی کافی مانگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پھیرن (کشمیر کا روایتی لباس) پر پانچ تولہ تلہ سوزی کا کام کرنے کے لئے کم سے کم ایک ماہ لگ جاتا ہے اور پھر ہمیں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپیے مزدوری ملتے ہیں جس میں سے تلہ وغیرہ کا خرچہ خود ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

محمودہ کا ماننا ہے کہ ہمارے کام سے بیوپاری اچھی کمائی کرتے ہیں جبکہ ہمارا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بھی ہماری کوئی خاص مدد نہیں کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا: ’کئی بار متعلقہ حکام ہمارے پاس آئے ہم سے کئی وعدے کئے لیکن پھر وہ پورے نہیں ہوئے‘۔انہوں نے کہا کہ کم اجرت ملنے کے باعث اب کئی خواتین دستکار اس کام سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہیں اور روز گار کے لئے دوسرے وسائل تلاش کر رہی ہیں۔women preserving heritage crafts of Kashmir

موصوف خاتون دستکار نے کہا کہ ہم وادی کی ایک خاص دستکاری کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس کے لئے یہاں کی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہماری مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ تلہ سوزی سے بالخصوص خواتین کاریگر اچھا روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ان کی طرف توجہ دے کر ان کو در پیش مسائل کو حل کرے۔

ادھرماہرین کا ماننا ہے کہ دستکاروں کی حوصلہ شکنی سے کئی دستکاریوں کا وجود ختم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔ ظہور حسین نامی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ہمارے دستکار کشمیری ثقافت کے ایک اہم جز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کی حوصلہ شکنی سے نہ صرف ایک فن دفن ہوجائے گا بلکہ ہماری شناخت کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔

یہ بھی پڑھیں : Apple Valley Hutmura: ایپل ویلی 'ہُٹمورہ' ان دنوں تجارت کا مرکز

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.