کشمیر دنیا بھر میں اپنے حسن اور قدرتی نظاروں کے لئے مشہور ہے۔ جموں و کشمیر کے شمال میں واقع گریز ایک حسین وادی ہے جو اپنے قدرتی حسن کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ دارالحکومت سرینگر سے قریب 123 کلومیٹر کی دوری پہ واقع یہ وادی بہت خوبصورت ہے۔ وادی گریز کے پہاڈوں کے دامن میں بہنے والا دریائے کشن گنگا جسے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے، ان وادیوں کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے- اس کے علاوہ گریز کی ان حسین و جمیل وادیوں میں چراگاہیں، پہاڈ، ندی نالے اور بہتے چشمے گریز کو مزید رونق بخشتے ہیں۔
گریز کی یہ وادیاں چھ ماہ تک جموں و کشمیر اور ملک سے بالکل منقطع ہو جاتی ہیں کیونکہ یہاں جب موسم سرما میں برف پڑتی ہیں تو راستے مکمل طور بند رہتے ہیں اور جموں و کشمیر کا یہ حسین و دلکش ٹکڑا الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ صرف گرمی کے کچھ مہینوں میں اس وادی کا رابطہ جموں و کشمیر کے دوسرے حصوں سے ہوتا ہے۔ یہاں کی مقامی آبادی اکثر شینا زبان بولتی ہیں جبکہ کسی کسی جگہ پہ کشمیری اور اردو زبان کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں کی بیشتر آبادی لائن آف کنٹرول پر آباد ہیں۔ جب کبھی کبھار سرحد کے آر پار جنگ بندی کی خلاف وردزی ہوتی ہے تو لوگوں کو خوف و دہشت طاری ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ہمیشہ ایک ڈر سا بنا رہتا ہے۔
گریز وادیاں جتنی حسین ہیں اسی قدر لوگوں کو یہاں دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ذرائع ابلاغ کے وسائل محدود ہیں، بجلی تو ڈیزل جنریٹرز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے وہ بھی صرف کچھ ہی گھنٹوں کے لئے، سڑکوں کی حالت بہت ہی خستہ ہے، اس کے علاوہ دیگر بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے، جس کی وجہ سے یہاں ان وادیوں میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کو از حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے گریز کے کئی علاقوں میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ گریز میں زندگی بسر کرنا کافی مشکل ہے تاہم اگر سرکار چاہے تو یہاں ترقی کی راہیں کھلیں گی اور لوگوں کے علاوہ سرحد پر تعینات فوجیوں کے لئے آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں-
وادی گریز کے ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ انہوں نے ضلع انتظامیہ بانڈی پورہ کو کئی دفعہ یہاں لوگوں کو درپیش مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی گزارش کی تاہم گریز کے لوگوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا-
مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ گریز وادی کے اندر ترقیاتی کاموں میں وسعت لائی جائے اور یہاں بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جائے۔