بھارت اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز یعنی ڈی جی ایم اوز نے رواں برس 25 فروری کو سرحد پر مکمل سیز فائر کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت عام تاثر یہ تھا کہ ماضی کی طرح یہ معاہدہ یا اعلان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ تاہم اس معاہدے کے پورے 100 دن گزرنے کے بعد دونوں طرف کی عوام میں امن کی ایک امید جگی ہے۔
شمالی کشمیر کے سرحدی علاقہ گریز میں بس گرمی کے یہی چند ماہ کاشتکاری و دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے میسر ہوتے ہیں، تاہم اس بار یہاں کے لوگ ایک نئے جذبے کے ساتھ اپنے کھیت کھلیانوں اور چراگاہوں کی جانب جارہے ہیں، اس بار یہاں کے لوگوں میں نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی ڈر۔ نوجوان پہلی بار اتنے پر اسکون ماحول میں اپنا کام کر کے خوش ہیں۔
جبکہ بزرگوں نے قریبا تین دہائی پہلے اپنی جوانی میں اس طرح سکون کا سانس لیا تھا۔ تقریبا تیس سال قبل یعنی 1990کے بعد دونوں ممالک کی افواج کے مابین سرحدوں پر شلنگ کا سلسلہ جاری ہے، اس دوران سرحدوں کے آس پاس بسنے والے لاکھوں افراد کو بہت ہی زیادہ مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
وادئی نیلم کے اس طرف دریائے کشن گنگا کے کنارے پر بسنے والے وادئ گریز بھی اس دوران کافی متاثر رہا تاہم ایک نئی تبدیلی سے لوگوں میں ایک نیا جذبہ اور ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کے متعلق ایک مقامی شخص اور بی ڈی سی ممبر بگھتور، مختار احمد لون کا کہنا ہے کہ 'یہاں کے لوگوں نے تین ماہ بعد اطمینان کا سانس لیا ہے، بگھتور گریز کا ایک ایسا علاقہ ہے جو کہ سرحد سے بالکل متصل ہے اور یہ علاقہ اکثر کراس بارڈر شلنگ کی زد میں آتا رہا ہے۔جس کی وجہ سے اس علاقے میں پچھلے تیس برس کے دوران کئی لوگوذں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں یا جسمانی طور پر معذور ہو چکے ہیں۔
بگھتور کے علاوہ داور اور تلیل کے لوگ بھی شلنگ سے دو چار رہے ہیں، ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسلر تلیل راجا اعجاز خان نے دونوں ممالک کے سربراہان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کے اس اقدام کے باعث سرحد کے آس پاس بسنے والے لاکھوں افراد کو اطمینان و سکون اور راحت کے لمحے نصیب ہوئے ہیں۔