نئی دہلی: تشدد سے متاثرہ منی پور میں راحت اور بازآبادکاری کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ نے پیر کو ہائی کورٹ کے تین سابق خاتون ججوں کی ایک کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔عدالت عظمیٰ نے سی بی آئی ٹیموں کو منی پور سے باہر کے افسران رکھنے کی بھی تجویز پیش کی۔ اس کے علاوہ عدالت نے سی بی آئی تحقیقات کی نگرانی کے لیے ایک ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر اور خصوصی تحقیقاتی ٹیموں (ایس آئی ٹی) کی نگرانی کے لیے منی پور سے باہر کے ڈی آئی جی رینک کے افسران کو مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ججوں کی مجوزہ کمیٹی کی سربراہی جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی سابق چیف جسٹس گیتا متل کریں گی جس میں بمبئی ہائی کورٹ کی سابق جج شالنی پی جوشی اور دہلی ہائی کورٹ کی سابق جج آشا مینن بھی شامل ہیں۔ سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے ججوں اور آئی پی ایس افسر دتاتریہ پڈسالگیکر کی کمیٹی سے وقتاً فوقتاً رپورٹیں داخل کرنے کو کہیں گے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ منی پور میں امن و امان اور اعتماد بحال ہو۔
سپریم کورٹ نے منی پور میں تحقیقات کی نگرانی اور سپریم کورٹ کو رپورٹ کرنے کے لیے ممبئی کے سابق کمشنر اور مہاراشٹر کے ڈی جی پی دتاتریا پڈسالگیکر کو مقرر کیا ہے۔ سی جے آئی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ تحقیات میں توازن برقرار رکھنے اور جانچ صحیح طریقے سے کرنے کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمیٹی انسانی نوعیت کے متنوع پہلوؤں کا بھی جائزہ لے گی۔
منی پور تشدد کے معاملے میں پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا، مرکز اور ریاستی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے اور مرکز نے سپریم کورٹ میں اسٹیٹس رپورٹ بھی داخل کی ہے۔ منی پور کے ڈی جی پی راجیو سنگھ بھی بنچ کے سامنے پیش ہوئے تاکہ نسلی تشدد اور انتظامیہ کی طرف سے اب تک اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں سوالات کا جواب دے سکیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سی بی آئی کی جگہ نہیں لے گی کیونکہ وہ ریاستی حکومت کی طرف سے اس کو منتقل کی گئی ایف آئی آر کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے یہ تجویز دی کہ سی بی آئی ٹی میں کم از کم ڈی ایس پی رینک کے پانچ یا چھ افسران مختلف ریاستوں کے ہوں اور ان افسران کو ڈیپوٹیشن پر سی بی آئی میں لایا جائے تاکہ ان ایف آئی آر کی تحقیقات کی نگرانی کی جا سکے۔ فی الحال، سی بی آئی عصمت دری اور جنسی زیادتی کے 11 معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے، جس میں دو خواتین کی برہنہ پریڈ بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- ایف آئی آر درج کرنے میں چودہ دن کیوں لگے، منی پور وائرل ویڈیو پر سپریم کورٹ کا مرکزی اور ریاستی حکومت سے سخت سوالات
- منی پور میں امن و امان تباہ، سپریم کورٹ نے ڈی جی پی کو طلب کیا
سپریم کورٹ نے کہا کہ منی پور حکومت کی طرف سے تشکیل دی جانے والی 42 ایس آئی ٹی کی سربراہی انسپکٹر سطح کے پولیس افسران کریں گے جنہیں ریاست کے باہر سے لایا جائے گا۔ عدالت نے مہاراشٹر کے سابق ڈی جی پی دتاترے پڈسالگیکر کو پولیس تحقیقات کی نگرانی کے لیے مقرر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ منی پور حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ فساد زدہ ریاست میں تشدد سے متعلق معاملات کی جانچ کے لیے ضلع وار ایس آئی ٹی تشکیل دی جائیں گی وہیں سپریم کورٹ نے منی پور تشدد کی تحقیقات کے لیے عدالت کی نگرانی والی کمیٹی کی درخواست پر اپنا حکم محفوظ کر لیا ہے۔
ریاستی حکومت کی اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق، تشدد زدہ ریاست میں 150 اموات ہوئیں، جن میں 3 مئی سے 5 مئی کے درمیان 59 اموات اور 27 مئی سے 29 مئی کے درمیان 28 افراد ہلاک ہوئے۔ اور، 5000 سے زیادہ آتش زنی کے واقعات، اور تشدد میں 502 افراد زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 6500 کیسز میں سے 11 ایف آئی آرز خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم پر مشتمل ہیں اور ان 11 کیسز میں سات گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یکم اگست کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مئی کے شروع سے لے کر جولائی کے آخر تک منی پور میں لا اینڈ آرڈر اور آئینی مشینری مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور اگر قانون لوگوں کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہے تو ان کے پاس کیا بچا ہے؟ ریاستی حکومت سے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں بھی سوال کیا تھا جنہوں نے وائرل ویڈیو میں بچ جانے والی خواتین کو بھیڑ کے حوالے کیا تھا۔ اور 7 اگست کو ڈی جی پی کو طلب کیا تھا۔