اس سے پہلے بھی جاری کیے گئے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ(این آر سی) ڈرافٹ میں ہزاروں لوگوں کے نام شامل نہیں تھے جس کی وجہ سے آسام کی عوام تشویش میں مبتلا ہیں۔
ریاست آسام میں آج این آر سی کی حتمی لسٹ جاری کی گئی۔ اور اسی سبب صوبے کی عوام میں کہیں بے چینی تو کہیں غصے کا ماحول پایا جارہا ہے۔حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے متعدد علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
موجودہ این آر سی بل میں جگہ پانے کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ ان کے اہلخانہ کا 1951 میں جاری پہلی این آر سی میں نام شامل رہا ہو۔اس کے علاوہ 24 مارچ 1971 تک ووٹر لسٹ میں شامل لوگوں کو بھی اس میں جگہ دی جائے گی۔
علاوہ ازیں جنم داخلہ، رفیوجی سٹیزن شپ سرٹیفکیٹ، زمینی دستاویزات، شناختی کارڈ، پی آر سی، پاسپورٹ، ایل آئی سی پالیسی، سرکاری لائسنس یا اجازت نامہ، تعلیمی دستاویزات اور کورٹ کے حکم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ لسٹ میں جگہ نہ پانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو غیر ملکی قرار دے دیا جائے گا بلکہ ایسے لوگوں کو فارین ٹریبیونل کے سامنے اپنے کیس پیش کرنا ہوگا۔
آسام معاہدے کے مطابق فارین ٹربیونل کو صرف شہریت سے جڑے مسائل پر سنوائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اس تعلق سے ریاستی حکومت نے بھی وضاحت کی ہے کہ لسٹ میں جن لوگوں کا نام درج نہیں ہے ان لوگوں کو کسی بھی حالت میں گرفتار نہیں کیا جائے گا، فارین ٹریبیونل کا فیصلہ آنے تک انھیں رعایت دی جائے گی۔
اگر کسی شخص کو ٹریبیونل کی جانب سے غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے تو اسے این آر سی لسٹ میں جگہ نہیں دی جائے گی، مزید یہ کہ اگر کسی شخص کا نام پہلے سے این آر سی میں شامل ہے اور اگر ٹریبیونل اس کا نام خارج کردیتا ہے تو ٹریبیونل کے فیصلے کو ہی حتمی مانا جائے گا۔
آسام کے وزیراعلی سربانند سونووال کا کہنا ہے کہ غلط طریقے سے اس لسٹ میں شامل ہونے والے غیر ملکی لوگوں اور لسٹ سے باہر ہوئے بھارتی لوگوں کے تعلق سے بھی مرکزی حکومت کوئی بل لاسکتی ہے۔
شیڈول آف سٹیزن شپ کے سیکشن 8 کے مطابق لوگ این آر سی میں نام نہ شامل ہونے پر اپیل کر سکیں گے۔ اپیل کے لیے اپیل کنندہ کو اب 60 دنوں سے بڑھاکر 120 دن کردیا گیا ہے یعنی کہ 31 دسمبر 2019 اپیل کرنے کی آخری تاریخ ہوگی۔
وزارت داخلہ کے حکم کےتحت این آر سی مسائل حل کرنے کے لیے 400 ٹریبیونل تشکیل دی جائے گی۔ اگر کوئی شخص ٹریبیونل میں کیس ہارجاتا ہے تو تب بھی اس کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا راستہ کھلا ہوا ہے، سبھی قانونی متبادل آزمانے سے پہلے کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا جائے گا۔
آسام حکومت کی جانب سے یہ سہولت دی گئی ہے کہ اگر کوئی غریب خاندان ہے اور وہ قانونی لڑائی کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا ہے تو اسے مدد فراہم کی جائے گی۔
اگر کسی شخص کو غیر ملکی قرار دے دیا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے لیے ریاستی حکومت متعدد جگہوں پر حراستی مراکز قائم کررہی ہے جہاں غیر ملکی قرار دیے گئے لوگوں کو رکھا جائے گا
ایسے لوگوں کو کس طرح بھارت سے باہر بھی کیا جائے گا اس تعلق سے ابھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ بنگلہ دیش کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کی بنأ پر ان لوگوں کو وہاں بھیجا جا سکے۔