ETV Bharat / state

آسام کے رکن پارلیمان کیب کے خلاف کورٹ جائیں گے

شہریت ترمیمی قانون (سی اے بی) کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اور اس قانون پر نظرثانی کے لیے قانونی چارہ جوئی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

آسام کے رکن پارلیمان کیب کے خلاف جائے گے کورٹ
آسام کے رکن پارلیمان کیب کے خلاف جائے گے کورٹ
author img

By

Published : Dec 14, 2019, 10:56 AM IST

Updated : Dec 14, 2019, 12:20 PM IST

اب آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر و ررکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔

مولانا بدر الدین اجمل نے کہا کہ ' لیگل سیل کی ٹیم مقدمہ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہے اور جلد ہی اس غیر دستوری اور غیر آئینی قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تاکہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری شناخت اور ڈھانچہ کا تحفظ ہو سکے۔'

شہریت ترمیمی قانون (سی اے بی) کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اور اس قانون پر نظرثانی کے لیے قانونی چارہ جوئی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ' شہریت ترمیمی ایکٹ جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد ہندوستان کے آئین کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ ایک متعصابانہ اور ہندوستان کے دستور کی روح سے متصادم ہے اسلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔'

مولانا نے کہا کہ' بھارت میں شہریت کے قانون میں بہت سی مرتبہ ترمیم ہوئی ہے مگر کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی گئی ہے مگر شاید یہ پہلا موقع ہے جب کوئی قانون بنا ہے جس میں شہریت مذہب کی بنیاد پر دینے کی بات کی گئی ہے جو کہ بھارت کے ُاس دستورکے خلاف ہے جس کی بنیاد سیکولر اور جمہوری اصولوں پر ہے۔'


انہوں نے کہا کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے وہ ' پھوٹ ڈالو، حکومت کرو' کی پالیسی اپنا کر ہندوستان کے لوگوں کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش میں لگی ہے، اور اس طر ح کا قانون ہندوستان کے لوگوں میں مزید مذہبی منافرت کو ہوا دینے والا ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا بھیم راﺅ امبیڈکر صاحب کی نگرانی میں ہندوستان کا جو دستور و آئین بنا تھا وہ ملک کے لوگوں کو جوڑنے والا ہے، ان کو مساوات اور برابری کے ساتھ حقوق دینے والا ہے،اسلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے وقت ُان اصولوں کو پیشِ نظر رکھے مگر افسوس کہ موجودہ حکومت اپنی تعداد کی بنیاد پر منمانے طریقہ سے قانون سازی کر رہی ہے جس سے اس ملک کے دستور و آئین کی پامالی ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہی میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون بھی ہے جس میں تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھکر ایک متعصبانہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی مخالفت کی ہے، سڑکوں پر بھی کر رہے ہیں اور اب عدالت عظمی میں اس سیاہ قانون کو چیلنج کریں گے۔

مولانا نے کہا کہ' ہمیں خوشی ہے کہ اپوزیشن کی اکثر پارٹیوں نے سرکار کے اس رویہ کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی ہے، ملک بھر میںسڑکوں پر بھی مظاہرے کئے ہیں اور کر رہے ہیںنیز بہت سے لوگ اس کو عدالت میں بھی چیلنج کرنے جارہے ہیں، جس سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور امید جاگتی ہے کہ انشاءاللہ حکومت کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں اور بالخصوص آسام سمیت نارتھ ایسٹ کی تمام ریاستوں میں اس شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دھرنا و احتجاج ہور ہاہے مگر مرکزی حکومت عوام کی آواز اور دردسننے کی بجائے ان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں، ان پر لاٹھیچارج کر رہی ہے، گولی چلا رہی ہے، ان کے احتجاج کو ٹی وی پر نشر نہ کرنے کا حکم جاری کر رہی ہے اور انٹرنیٹ وغیر کی سروس بن کر رہی ہے۔ان سب سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ بی جے پی سرکار گھمنڈ میں چور ہے اوراسے لوگوں کی پریشانی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔


مولانا نے کہا کہ اس قانون سے آسام اکورڈ بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے گا جو آسام کے لوگوں کی تحریک اور قربانی کے بعد ۵۸۹۱ میں عمل میں آیا تھا،اسی طرح سپریم کورٹ کی نگرانی میںآسام میں بننے والے این آر سی کے لئے کی گئی محنت، اس کے لئے خرچ کئے گئے پیسہ،، لوگوں کو اس کے لئے ہوئی مشقت و پریشانی اوراس کے لئے چلنے والی تحریک سب کچھ بے مطلب ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ' آسام جو خود پسمانگی کا شکار ہے وہاں مزید غیر ملک سے لاکر بسائی جانے والی آبادی کا بوجھ پڑے گا۔ مولانا نے کہا کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس قانون کا تعلق تو صرف پاسکتان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلموں سے ہے اسلئے ہندوستان کے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مگر حقیقت یہ اس قانون کو این آر سی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف وزیر داخلہ بار بار پورے ملک میں این آر سی بنانے کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ قانون بنایا ہے۔ اب اگر این آر سی میں غیر مسلموں کا نام کسی وجہ سے نہیں آئے گا تو وہ اس قانون کی وجہ سے شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ جن مسلمانوں کا نام کسی وجہ سے نہیں آپائے گا وہ شہریت کے لئے تڑپتے رہ جائیں گے۔ اسلئے ہم ہر ممکن لڑائی لڑیں گے اور آئین میں دئےے گئے حقوق کا استعمال کرکے اس قانون کو کالعدم بنانے کی کوشش کریں گے۔

اب آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر و ررکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔

مولانا بدر الدین اجمل نے کہا کہ ' لیگل سیل کی ٹیم مقدمہ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہے اور جلد ہی اس غیر دستوری اور غیر آئینی قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تاکہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری شناخت اور ڈھانچہ کا تحفظ ہو سکے۔'

شہریت ترمیمی قانون (سی اے بی) کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے اور اس قانون پر نظرثانی کے لیے قانونی چارہ جوئی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ' شہریت ترمیمی ایکٹ جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد ہندوستان کے آئین کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ ایک متعصابانہ اور ہندوستان کے دستور کی روح سے متصادم ہے اسلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔'

مولانا نے کہا کہ' بھارت میں شہریت کے قانون میں بہت سی مرتبہ ترمیم ہوئی ہے مگر کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی گئی ہے مگر شاید یہ پہلا موقع ہے جب کوئی قانون بنا ہے جس میں شہریت مذہب کی بنیاد پر دینے کی بات کی گئی ہے جو کہ بھارت کے ُاس دستورکے خلاف ہے جس کی بنیاد سیکولر اور جمہوری اصولوں پر ہے۔'


انہوں نے کہا کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے وہ ' پھوٹ ڈالو، حکومت کرو' کی پالیسی اپنا کر ہندوستان کے لوگوں کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش میں لگی ہے، اور اس طر ح کا قانون ہندوستان کے لوگوں میں مزید مذہبی منافرت کو ہوا دینے والا ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا بھیم راﺅ امبیڈکر صاحب کی نگرانی میں ہندوستان کا جو دستور و آئین بنا تھا وہ ملک کے لوگوں کو جوڑنے والا ہے، ان کو مساوات اور برابری کے ساتھ حقوق دینے والا ہے،اسلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے وقت ُان اصولوں کو پیشِ نظر رکھے مگر افسوس کہ موجودہ حکومت اپنی تعداد کی بنیاد پر منمانے طریقہ سے قانون سازی کر رہی ہے جس سے اس ملک کے دستور و آئین کی پامالی ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہی میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون بھی ہے جس میں تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھکر ایک متعصبانہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی مخالفت کی ہے، سڑکوں پر بھی کر رہے ہیں اور اب عدالت عظمی میں اس سیاہ قانون کو چیلنج کریں گے۔

مولانا نے کہا کہ' ہمیں خوشی ہے کہ اپوزیشن کی اکثر پارٹیوں نے سرکار کے اس رویہ کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی ہے، ملک بھر میںسڑکوں پر بھی مظاہرے کئے ہیں اور کر رہے ہیںنیز بہت سے لوگ اس کو عدالت میں بھی چیلنج کرنے جارہے ہیں، جس سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور امید جاگتی ہے کہ انشاءاللہ حکومت کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں اور بالخصوص آسام سمیت نارتھ ایسٹ کی تمام ریاستوں میں اس شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دھرنا و احتجاج ہور ہاہے مگر مرکزی حکومت عوام کی آواز اور دردسننے کی بجائے ان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں، ان پر لاٹھیچارج کر رہی ہے، گولی چلا رہی ہے، ان کے احتجاج کو ٹی وی پر نشر نہ کرنے کا حکم جاری کر رہی ہے اور انٹرنیٹ وغیر کی سروس بن کر رہی ہے۔ان سب سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ بی جے پی سرکار گھمنڈ میں چور ہے اوراسے لوگوں کی پریشانی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔


مولانا نے کہا کہ اس قانون سے آسام اکورڈ بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے گا جو آسام کے لوگوں کی تحریک اور قربانی کے بعد ۵۸۹۱ میں عمل میں آیا تھا،اسی طرح سپریم کورٹ کی نگرانی میںآسام میں بننے والے این آر سی کے لئے کی گئی محنت، اس کے لئے خرچ کئے گئے پیسہ،، لوگوں کو اس کے لئے ہوئی مشقت و پریشانی اوراس کے لئے چلنے والی تحریک سب کچھ بے مطلب ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ' آسام جو خود پسمانگی کا شکار ہے وہاں مزید غیر ملک سے لاکر بسائی جانے والی آبادی کا بوجھ پڑے گا۔ مولانا نے کہا کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس قانون کا تعلق تو صرف پاسکتان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلموں سے ہے اسلئے ہندوستان کے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مگر حقیقت یہ اس قانون کو این آر سی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف وزیر داخلہ بار بار پورے ملک میں این آر سی بنانے کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ قانون بنایا ہے۔ اب اگر این آر سی میں غیر مسلموں کا نام کسی وجہ سے نہیں آئے گا تو وہ اس قانون کی وجہ سے شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ جن مسلمانوں کا نام کسی وجہ سے نہیں آپائے گا وہ شہریت کے لئے تڑپتے رہ جائیں گے۔ اسلئے ہم ہر ممکن لڑائی لڑیں گے اور آئین میں دئےے گئے حقوق کا استعمال کرکے اس قانون کو کالعدم بنانے کی کوشش کریں گے۔

Intro:شہریت ترمیمی قانون:
آ سام کے رکن پارلیمنٹ بھی کورٹ جائیں گے

نئی ہلی:
متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ کارخ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔اب آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر و ررکن پارلیمنٹ مولانا بدر الدین اجمل نے اعلان کیا ہے کہ وہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ لیگل سیل کی ٹیم مقدمہ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہے اور جلد ہی اس غیر دستوری اورغیر آئینی قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا تاکہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری شناخت اور ڈھانچہ کا تحفظ ہو سکے۔ مولانا اجمل نے کہا کہ شہریت ترمیمی بل جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہونے کے بعد اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد ہندوستان کے آئین کا حصہ بن چکا ہے یہ ایک متعصابانہ اور ہندوستان کے د ستور کی روح سے متصادم ہے اسلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔مولانا نے کہا کہ ہندوستان میں شہریت کے قانون میں بہت سی مرتبہ ترمیم ہوئی ہے مگر کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی گئی ہے مگر شاید یہ پہلا موقع ہے جب کوئی قانون بنا ہے جس میں شہریت مذہب کی بنیاد پر دینے کی بات کی گئی ہے جو کہ ہندوستان کے ُاس دستورکے خلاف ہے جس کی بنیاد سیکولر اور جمہوری اصولوں پر ہے۔ مولانا نے کہا کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے وہ ' پھوٹ ڈالو، حکومت کرو' کی پالیسی اپنا کر ہندوستان کے لوگوں کو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر بانٹنے کی کوشش میں لگی ہے، اور اس طر ح کا قانون ہندوستان کے لوگوں میں مزید مذہبی منافرت کو ہوا دینے والا ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا بھیم راﺅ امبیڈکر صاحب کی نگرانی میں ہندوستان کا جو دستور و آئین بنا تھاوہ ملک کے لوگوں کو جوڑنے والا ہے، ان کو مساوات اور برابری کے ساتھ حقوق دینے والا ہے،اسلئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے وقت ُان اصولوں کو پیشِ نظر رکھے مگر افسوس کہ موجودہ حکومت اپنی تعداد کی بنیاد پر منمانے طریقہ سے قانون سازی کر رہی ہے جس سے اس ملک کے دستور و آئین کی پامالی ہو رہی ہے۔ انہی میں سے ایک شہریت ترمیمی قانون بھی ہے جس میں تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھکر ایک متعصبانہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی مخالفت کی ہے، سڑکوں پر بھی کر رہے ہیں اور اب عدالت عظمی میں اس سیاہ قانون کو چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ اپوزیشن کی اکثر پارٹیوں نے سرکار کے اس رویہ کی پارلیمنٹ میں مخالفت کی ہے، ملک بھر میںسڑکوں پر بھی مظاہرے کئے ہیں اور کر رہے ہیںنیز بہت سے لوگ اس کو عدالت میں بھی چیلنج کرنے جارہے ہیں، جس سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے اور امید جاگتی ہے کہ انشاءاللہ حکومت کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں اور بالخصوص آسام سمیت نارتھ ایسٹ کی تمام ریاستوں میں اس شہریت ترمیمی بل کے خلاف دھرنا و احتجاج ہور ہاہے مگر مرکزی حکومت عوام کی آواز اور دردسننے کی بجائے ان کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں، ان پر لاٹھیچارج کر رہی ہے، گولی چلا رہی ہے، ان کے احتجاج کو ٹی وی پر نشر نہ کرنے کا حکم جاری کر رہی ہے اور انٹرنیٹ وغیر کی سروس بن کر رہی ہے۔ان سب سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ بی جے پی سرکار گھمنڈ میں چور ہے اوراسے لوگوں کی پریشانی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے آسام اکورڈ بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے گا جو آسام کے لوگوں کی تحریک اور قربانی کے بعد ۵۸۹۱ میں عمل میں آیا تھا،اسی طرح سپریم کورٹ کی نگرانی میںآسام میں بننے والے این آر سی کے لئے کی گئی محنت، اس کے لئے خرچ کئے گئے پیسہ،، لوگوں کو اس کے لئے ہوئی مشقت و پریشانی اوراس کے لئے چلنے والی تحریک سب کچھ بے مطلب ہو جائے گا۔ آسام جو خود پسمانگی کا شکار ہے وہاں مزید غیر ملک سے لاکر بسائی جانے والی آبادی کا بوجھ پڑے گا۔ مولانا نے کہا کہ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اس قانون کا تعلق تو صرف پاسکتان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلموں سے ہے اسلئے ہندوستان کے مسلمانوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مگر حقیقت یہ اس قانون کو این آر سی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف وزیر داخلہ بار بار پورے ملک میں این آر سی بنانے کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف یہ قانون بنایا ہے۔ اب اگر این آر سی میں غیر مسلموں کا نام کسی وجہ سے نہیں آئے گا تو وہ اس قانون کی وجہ سے شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ جن مسلمانوں کا نام کسی وجہ سے نہیں آپائے گا وہ شہریت کے لئے تڑپتے رہ جائیں گے۔ اسلئے ہم ہر ممکن لڑائی لڑیں گے اور آئین میں دئےے گئے حقوق کا استعمال کرکے اس قانون کو کالعدم بنانے کی کوشش کریں گے۔
Body:@Conclusion:
Last Updated : Dec 14, 2019, 12:20 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.