امپھال: منی پور میں تشدد کے پیش نظر حکومت نے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا ہے۔ معلومات کے مطابق پولیس کو شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قبائلیوں اور اکثریتی برادری کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات کو روکنے کے لیے فوج اور آسام رائفلز کی 55 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ صورتحال کے پیش نظر فوج کی 14 بٹالین کو اسٹینڈ بائی پر رکھا گیا ہے۔ مرکز منی پور کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ریپڈ ایکشن فورس (RAF) کی ٹیمیں بھی بھیجی ہیں۔ آر اے ایف سی آر پی ایف کی ایک خصوصی شاخ ہے جو امن و امان سے متعلق صورتحال سے نمٹتی ہے۔ وزارت کے ایک سینئر اہلکار نے انکشاف کیاکہ '500 جوان حساس علاقوں میں تعینات کیے جائیں گے۔' اس وقت منی پور میں سی آر پی ایف کی کئی کمپنیاں شہر کے آس پاس کے علاقوں میں تعینات ہیں۔ جب کہ آسام رائفلز اور بھارتی فوج تشدد متاثرہ علاقوں میں تعینات ہے۔ ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ ’’حالات ٹھیک نہیں ہیں اور اسی لیے گورنر نے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
ڈیفنس پی آر او نے کہا کہ بھارتی فوج اور آسام رائفلز نے ریاست میں امن و امان کی بحالی کے لیے رات بھر مسلسل 7500 سے زیادہ شہریوں کو نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں کیں۔ تشدد کی وجہ سے 9000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔ بدھ کے روز ناگا اور کوکی قبائلیوں کی جانب سے 'قبائلی یکجہتی مارچ' کے انعقاد کے بعد تشدد پھوٹ پڑا، جو رات میں مزید شدت اختیار کر گیا۔
ترجمان نے کہا کہ اب تک سکیورٹی فورسز نے تشدد سے متاثرہ علاقوں سے 9000 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزید لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ چورا چند پور میں تقریباً 5000 لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، جب کہ 2000 کو امپھال اور دیگر 2000 کو تینوگوپال ضلع کے سرحدی قصبے مورہ میں منتقل کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر قبائلی برادری کی جانب سے قبائلی درجے کے مطالبے پر منی پور میں فسادات ہوئے، غیر قبائلی برادر کے مطالبے کے خلاف قبائلیوں کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔ غیر قبائلی آبادی ریاست کی آبادی کا 53 فیصد ہے۔
پولیس کے مطابق ضلع چوراچند پور کے علاقے توربنگ میں مارچ کے دوران اکثیریتی برادری کے افراد پر مبینہ طور پر مسلح افراد کے ہجوم نے حملہ کیا، جس کے بعد جوابی حملے بھی ہوئے۔ جس کی وجہ سے ریاست بھر میں تشدد بھڑک اٹھا۔ انہوں نے کہا کہ توربنگ میں تین گھنٹے سے زائد تک جاری رہنے والے تشدد میں کئی دکانوں اور مکانات کو توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ آگ لگا دی گئی۔
مزید پڑھیں: