واضح رہے کہ اس تنازع کے نتیجے میں پولیس کے ذریعہ کی گئی فائرنگ میں دو شہریوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو فوری طور پر مظاہرین کو روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو ہدایت جاری کرنا چاہیے اور ہر قیمت پر ہر شخص کی زندگی کا تحفظ یقینی بنانے کی ہر ممکن اقدامات کرنے چاہیے لیکن کیا ایسا کیا گیا؟
ان علاقوں میں جاری مظاہروں کے خلاف حکومت نے کرفیو نافذ کرکے انٹرنیٹ خدمات معطل اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نظر بند کرکے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے جبکہ اقتدار میں حکومت کا فرض ہے کہ عوام کی حفاظت کرے، ان کے انسانی حقوق کا احترام اور حفاظت بھی ان کا فرض ہے۔
انٹرنیٹ خدمات کی غیر معینہ مدت تک معطلی انسانی حقوق کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انٹرنیٹ خدمات معطلی کی وجہ سے صارفین کسی بھی قسم کی معلومات حاصل نہیں کر پا ر ہے ہیں جو آزادی اظہار رائے کے حق کا اہم عضو ہے۔
اس اقدامات سے علاقے میں موجود لوگوں کو نہ صرف باہری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا بلکہ اس سے انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ایمنسٹی انڈیا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معطلی کو فی الفور ختم کرے۔
اویناش کمار نے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ پرامن مذاکرات کریں اور ان امتیازی ترامیم کو منسوخ کرنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کریں۔
واضح رہے کہ تقریبا چار دہائیوں سے آسام میں غیر ملکی تحریک دیکھنے کو مل رہی ہے۔ 31 اگست 2019 میں ریاست نے این آر سی کی حتمی فہرست جاری کی گئی تھی جس میں تقریبا 1.9 ملین افراد اس فہرست سے باہر تھے۔ اس فہرست سے خارج ہونے والے افراد نے اس سے متعلق بنائے گئے ٹریبونل سے اپیل کی جو ایسے افراد کی شہریت کا تعین کرے گا۔
شہریت ترمیم بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 6 مذاہب یعنی ہندو، سکھ، عیسائی، جین، پارسی اور بودھ مذاہب کے ماننے والے غیر قانونی مہاجرین ، جو بھارت میں 31 دسمبر 2014 یا اس قبل بھارت میں داخل ہوئے ہیں انہیں نیچرلائزیشن اور رجسٹریشن کے ذریعے بھارت کی شہریت دی جائیگی۔
جب بھارتی پارلیمنٹ میں شہریت ترمیم بل پر گہرائی اور گرما گرم مباحثے جاری تھے اس وقت آسام اور تریپورہ میں بڑے پیمانے پر اس بل کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔جس کے ردعمل میں بھارتی حکومت نے گوہاٹی، ڈبِروگڑھ اور آسام میں کرفیو نافذ کیا اور ریاست میں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں موبائل انٹرنیٹ سروس سمیت بڑاڈ بینڈ سروسز کو بھی معطل کردیا گیا ہے۔ یہ احتجاج پڑوسی ریاست میگھالیہ میں بھی وسیع پیمانے پر پھیلتے جارہے ہیں اور اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ پورا شمال مشرقی علاقہ اس آگ میں جل رہا ہے جو ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔