نئی دہلی: سپریم کورٹ کے ایک جج نے بدھ کے روز آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو کی درخواست پر سماعت سے خود کو الگ کر لیا۔ نائیڈو کی جانب سے 371 کروڑ روپے کے مبینہ بدعنوانی معاملے میں 8 ستمبر 2021 کو ایف آئی آر میں ان کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔ نائیڈو کی درخواست بدھ کو جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے مقرر کی گئی تھی۔
سماعت کے آغاز میں جسٹس کھنہ نے کہا کہ میرے بھائی (جسٹس بھٹی) کو کیس کی سماعت میں کچھ اعتراضات ہیں۔ نائیڈو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اور عدالت سے اپیل کہ کہ وہ جلد از جلد کسی اور بنچ کے سامنے معاملہ کو مقرر کر دیں۔ جسٹس کھنہ نے کہا کہ کیس کی سماعت اب اگلے ہفتے ہو سکتی ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ لوتھرا نے سپریم کورٹ میں نائیڈو کی طرف سے پیش ہوکر بنچ سے درخواست کی کہ انہیں چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے اس کا ذکر کرنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر جسٹس کھنہ نے کہا، 'اگر آپ یہ کر سکتے ہیں تو آپ یہ ضرور کریں۔
کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے؟' سالوے نے کہا کہ اگر بنچ اسے سننے کو تیار نہیں ہے تو پھر ایسا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ جسٹس کھنہ نے کہا کہ لوتھرا نے یہ درخواست کی ہے۔ نائیڈو کے وکلاء آج ہی کسی اور بنچ کے سامنے سماعت کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- نائیڈو کی عدالتی حراست میں 5 اکتوبر تک توسیع
- آندھرا پردیش کے سابق وزیراعلی چندرا بابو نائیڈو گرفتار
- skill development scam چندرا بابو نائیڈو سپریم کورٹ سے رجوع
قابل ذکر ہے کہ نائیڈو کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 21 ماہ قبل درج کی گئی ایف آئی آر میں اچانک ان کا نام شامل کیا گیا اور پھر غیر قانونی طور پر انھیں گرفتار کیا گیا جو کہ صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر ہے۔ نائیڈو نے کہا کہ یہ حکومت سے بدلہ لینے اور سب سے بڑی اپوزیشن تلگو دیشم پارٹی کو پٹری سے اتارنے کے لیے ایک منصوبہ بند مہم تھی۔ درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار اس وقت اپوزیشن لیڈر ہیں۔ تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے قومی صدر اور آندھرا پردیش کے سابق وزیراعلیٰ، جنہوں نے 14 سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دیں، انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔