لیکن لوگوں کے مطابق دو سال گزر جانے کے باوجود نہ ہی اس سڑک کا کام مکمل کیا گیا اور نہ ہی انہیں معاوضہ فراہم کیا گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ انہیں اپنے حق کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں، لیکن ہماری گزارش پر کوئی غور نہیں کر رہا ہے۔
لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مذکورہ سڑک کی تعمیر کی زد میں آنے والے رہائشی مکانات، زمین اور درختوں کا معاوضہ جلد از جلد دیا جائے، جس کا ہم لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔
لوگوں کے مطابق اس سڑک کی تعمیر کے لیے جب زمین کی نشاندہی کی گئی تو اس میں ہمارے میوہ باغات کی زمین بھی چلی گئی جن باغات میں پرانے فصل دینے والے مختلف اقسام کے درخت بھی موجود تھے اور ان کو کاٹ کر اس سڑک کی تعمیر عمل میں لائی گئی لیکن دو برس گزرنے کے بعد بھی انہیں محروم رکھا گیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم پہاڑوں پر اپنی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں، حکومت دعوے تو بہت کر رہی ہے کہ گجر بکروال لوگوں کی بازآبادکاری کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، لیکن زمینی سطح پر ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ ہم اپنی زمین کا معاوضہ مانگنے کے لیے جس دفتر میں بھی گئے، ہم پہاڑی لوگوں کی فریاد کو نظر انداز کیا گیا۔
مقامی لوگوں نے ڈپٹی کمشنر اننت ناگ اور لیفٹیننٹ گورنر سے معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔
اس سلسلے میں جب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے ایکزیکٹیو انجنئیر خالد محمود سے بات کرنی چاہی، تو انہوں نے کیمرے کے سامنے بات کرنے سے انکار کیا لیکن ان لوگوں کو ابھی تک معاوضہ نہ ملنے کی وجہ یہاں کے نامصائد حالات کو ٹھرایا۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370اور 35 اے کی منسوخی کے بعد جو نامساعد حالات یہاں پر تھے اس دوران کوئی بھی کام کرنا دشوار ہو گیا تھا اور اس سال کورونا وائرس کی وباء نے پھر سے سارا نظام درہم برہم کر دیا، اب حالات میں سدھار آتے ہی انکے اس معاملے کو حل کرکے معاوضہ دیا جائے گا۔