ETV Bharat / state

Article 370 Abrogation Anniversary دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد 50 سے زائد سرکاری ملازمین برطرف - jk govt on terminated employees

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جموں وکشمیر انتظامیہ نے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سرکاری ملازمین کو نوکری سے برطرف کیا ہے۔ اس سے پہلے سنہ 1995 اور سنہ 2016 میں بھی جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کی گئی تھیں، تاہم بعد میں عدالت کی ہدایات پر انہیں دوبارہ بحال کیا گیا۔

More than 50 govt employees termination-after-abrogation-of-article-370
دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد 50 سے زائد سرکاری ملازمین برطرف
author img

By

Published : Aug 4, 2023, 11:01 PM IST

Updated : Aug 5, 2023, 7:04 PM IST

دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد 50 سے زائد سرکاری ملازمین برطرف

اننت ناگ: 5 اگست 2019 کو مرکزی سرکار نے دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کے بعد یہ جواز پیش کیا تھا کہ اس قدم سے جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق کو بحال کیا جائے گا جن سے وہ آج تک محروم رکھے گئے تھے۔اُس وقت مرکزی سرکار نے کہا کہ جموں کشمیر کی مجموعی ترقی میں دفعہ 370 اور 35 اے ایک بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اُس وقت مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے کہا گیا کہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام بنانے کا فیصلہ علاقہ میں سکیورٹی کی صورتحال اور سرحد پار سے ہونے والی عسکریت پسندی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد سکیورٹی ایجنسیوں نے عسکریت پسندوں اور ان کے معاونین کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں شروع کی، جس دوران سینکڑوں نوجوان حراست میں لیے گئے، وہیں علیحدگی پسندوں اور جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا، جس دوران کمرشل سمیت بعض افراد کی نجی پراپرٹی کو سیل کردیا گیا اور آج بھی یہ عمل لگاتار جاری ہے۔جموں و کشمیر انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے عسکریت پسندی کو فروغ دینے اور انہیں مدد کرنے والے افراد اور اداروں کے خلاف سخت کاروائی لازم ملزوم ہے۔سرکار کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مختلف محکموں میں کام کرنے والے ایسے درجنوں سرکاری ملازمین کی لسٹ تیار کی جارہی ہے جو عسکریت پسندی(ملیٹنسی) کو فروغ دینے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ انتظامیہ نے اس حوالے سے کئی سرکاری ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے ماحولیاتی نظام کو ختم کرنے کے لئے اب تک 52 سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیاہے ۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے مزید 32 افراد کی فہرست تیار کی جا رہی ہے جن کے خلاف عسکریت پسندوں سے روابط رکھنے اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے مقدمات درج ہیں۔ ان ملازمین کے خلاف شواہد اکٹھا ہونے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ان کے خلاف برطرفی کا حکم جاری کر دیا جائے گا۔

وہیں انتظامہ کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی جانچ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو اُن ملازمین کے سروس ریکارڈ کی تصدیق کررہی ہے، جن کی ابتدائی تقرری کے آرڈر دستیاب نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملازمین کی ایک بڑی تعداد جموں کشمیر ہیومن ریسورس مینجمنٹ سسٹم (ایچ آر ایم ایس) پر اپنے ابتدائی تقرری کے آرڈر اپ لوڈ کرنے میں ناکام رہے ہے۔ یہ پورٹل جموں و کشمیر انتظامیہ نے اپنے تمام ملازمین کی لازمی رجسٹریشن کے لیے شروع کیا تھا۔

مزید پڑھیں:



قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر میں کئی قوانین میں ترامیم کی گئی جس میں ایک دفعہ کے تعلق سے یہ کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے گا یا جموں کشمیر کی امن و سلامتی کو نقصان پہنچائے گا ، اسے بغیر کسی تحقیقات یا انکوائری کے بھی نوکری سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جموں وکشمیر انتظامیہ نے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام سرکاری ملازمین کے خلاف اس طرح کی کارروائی عمل میں لائی ہوں ۔ سنہ 1995 اور سنہ 2016 میں بھی سرکاری ملازمین کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کی گئی تھیں، تاہم بعد میں عدالت کی ہدایات پر انہیں دوبارہ بحال کیا گیا۔

ملازمین کے خلاف سرکار کی سخت گیر پالیسی اپنانے پر سیاسی رہنما بی جے پی حکومت کی سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار عسکریت پسندی کے خاتمہ کی آڑ میں ملازمین کو نشانہ بنا رہی ہے، نوکریاں فراہم کرنے کے بجائے نوکریاں چھین لی جاتی ہیں اور لوگوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔واضح رہے کہ جموں وکشمیر میں اس وقت سرکاری ملازمین کی کُل تعداد 4 لاکھ 50 ہزار ہے

دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد 50 سے زائد سرکاری ملازمین برطرف

اننت ناگ: 5 اگست 2019 کو مرکزی سرکار نے دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کے بعد یہ جواز پیش کیا تھا کہ اس قدم سے جموں و کشمیر کے عوام کے حقوق کو بحال کیا جائے گا جن سے وہ آج تک محروم رکھے گئے تھے۔اُس وقت مرکزی سرکار نے کہا کہ جموں کشمیر کی مجموعی ترقی میں دفعہ 370 اور 35 اے ایک بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اُس وقت مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے کہا گیا کہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام بنانے کا فیصلہ علاقہ میں سکیورٹی کی صورتحال اور سرحد پار سے ہونے والی عسکریت پسندی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد سکیورٹی ایجنسیوں نے عسکریت پسندوں اور ان کے معاونین کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں شروع کی، جس دوران سینکڑوں نوجوان حراست میں لیے گئے، وہیں علیحدگی پسندوں اور جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا، جس دوران کمرشل سمیت بعض افراد کی نجی پراپرٹی کو سیل کردیا گیا اور آج بھی یہ عمل لگاتار جاری ہے۔جموں و کشمیر انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے عسکریت پسندی کو فروغ دینے اور انہیں مدد کرنے والے افراد اور اداروں کے خلاف سخت کاروائی لازم ملزوم ہے۔سرکار کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ مختلف محکموں میں کام کرنے والے ایسے درجنوں سرکاری ملازمین کی لسٹ تیار کی جارہی ہے جو عسکریت پسندی(ملیٹنسی) کو فروغ دینے میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ انتظامیہ نے اس حوالے سے کئی سرکاری ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے ماحولیاتی نظام کو ختم کرنے کے لئے اب تک 52 سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیاہے ۔ ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے مزید 32 افراد کی فہرست تیار کی جا رہی ہے جن کے خلاف عسکریت پسندوں سے روابط رکھنے اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے مقدمات درج ہیں۔ ان ملازمین کے خلاف شواہد اکٹھا ہونے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ان کے خلاف برطرفی کا حکم جاری کر دیا جائے گا۔

وہیں انتظامہ کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی جانچ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو اُن ملازمین کے سروس ریکارڈ کی تصدیق کررہی ہے، جن کی ابتدائی تقرری کے آرڈر دستیاب نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملازمین کی ایک بڑی تعداد جموں کشمیر ہیومن ریسورس مینجمنٹ سسٹم (ایچ آر ایم ایس) پر اپنے ابتدائی تقرری کے آرڈر اپ لوڈ کرنے میں ناکام رہے ہے۔ یہ پورٹل جموں و کشمیر انتظامیہ نے اپنے تمام ملازمین کی لازمی رجسٹریشن کے لیے شروع کیا تھا۔

مزید پڑھیں:



قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں وکشمیر میں کئی قوانین میں ترامیم کی گئی جس میں ایک دفعہ کے تعلق سے یہ کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے گا یا جموں کشمیر کی امن و سلامتی کو نقصان پہنچائے گا ، اسے بغیر کسی تحقیقات یا انکوائری کے بھی نوکری سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جموں وکشمیر انتظامیہ نے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام سرکاری ملازمین کے خلاف اس طرح کی کارروائی عمل میں لائی ہوں ۔ سنہ 1995 اور سنہ 2016 میں بھی سرکاری ملازمین کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں کی گئی تھیں، تاہم بعد میں عدالت کی ہدایات پر انہیں دوبارہ بحال کیا گیا۔

ملازمین کے خلاف سرکار کی سخت گیر پالیسی اپنانے پر سیاسی رہنما بی جے پی حکومت کی سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار عسکریت پسندی کے خاتمہ کی آڑ میں ملازمین کو نشانہ بنا رہی ہے، نوکریاں فراہم کرنے کے بجائے نوکریاں چھین لی جاتی ہیں اور لوگوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔واضح رہے کہ جموں وکشمیر میں اس وقت سرکاری ملازمین کی کُل تعداد 4 لاکھ 50 ہزار ہے

Last Updated : Aug 5, 2023, 7:04 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.