جموں و کشمیر میں طبی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کے لیے ہر سال ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، تاہم جنوبی کشمیر کے متی گاورن، کوکرناگ میں واقع طبی مرکز کا دورہ کرکے سرکاروں کے دعوے کھوکھلے نظر آتے ہیں۔
کوکرناگ سے تقریباً 30کلومیٹر کی دوری پر واقع متی گاورن علاقے میں محکمہ صحت نے قریب تین دہائیاں قبل ایک طبی مرکز (ڈسپنسری) کا قیام عمل میں لایا تھا۔ تاہم تیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی طبی مرکز کو اپگریڈ نہیں کیا گیا۔
مقامی آبادی کے مطابق ’’محکمہ صحت اور مقامی سیاست دانوں نے عوام کو صحت عامہ جیسی بنیادی سہولت بہم پہنچانے کی غرض سے کئی خواب دکھائے۔ مگر انتظامیہ ان خوابوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ثابت ہوئی۔‘‘
ڈسپنسری کی قدیم عمارت انتہائی خستہ ہو چکی ہے، جگہ جگہ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور اکثر و بیشتر مقفل ہی رہتی ہے۔ مقامی باشندوں نے بتایا: ’’ڈسپنسری میں طبی عملہ کبھی کبھار نظر آتا ہے، جس کے باعث ہمیں معمولی طبی معائنے کی غرض سے بھی ضلع اسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سر درد کا معائنہ کرنے کے لیے بھی انہیں تقریباً 10 کلومیٹر دور پرائمری ہیلتھ سینٹر لارنو یا ضلع اسپتال کا رخ کرنا پڑتا ہے، جس کے سبب انہیں روزانہ کئی مشکلات جھیلنی پڑتی ہیں۔
حکومت نے 13 سال قبل لاکھوں روپئے کی لاگت سے علاقہ میں پی ایچ سی کی عمارت کا کام شروع کیا۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر مذکورہ پی ایچ سی کے ڈھانچے کو پس پشت چھوڑ دیا گیا، جس کی حالت بھی کافی خراب ہو چکی ہے۔ مقامی علاقہ کے لوگ مذکورہ بلڈنگ کے احاطے میں آج کل اخروٹ سکھانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔
گنجان آبادی پر مشتمل متی گاورن باشندوں کو برف باری کے ایام میں طبی لحاظ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات مریض کو چارپائی پر لارنو یا کوکرناگ اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق انہوں نے کئی مرتبہ انتظامیہ سے پی ایچ سی کو فعال بنانے سے متعلق گزارشات کیں، تاہم ہر بار ان کی آواز ’’صدا بہ صحر‘‘ ثابت ہوئی۔
ای ٹی وی بھارت جب اس معاملے سے متعلق چیف میڈیکل آفیسر اننت ناگ سے بات کی تو انہوں نے کیمرہ کے سامنے کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا، تاہم انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ یہ معاملہ اعلیٰ عہدیداروں کی نوٹس میں جلد لائیں گے۔