انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہٹ دھرمی اور انا کی سیاست ترک کر کے زمینی حقائق کو تسلیم کریں کہ پانچ اگست 2019 کا وار ایک بہت بڑی غلطی تھی جس سے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
حسنین مسعودی نے یہ باتیں لوک سبھا میں بجٹ پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کے فیصلے جموں و کشمیر کے لوگوں کو ناقابل قبول ہیں اور اس کا برملا اظہار انہوں نے حالیہ ڈی ڈی سی انتخابات میں کر کے دکھایا، جس میں تمام سرکاری و غیر سرکاری وسائل بروئے کار لانے کے باوجود بھی حکمران جماعت کو کشمیر میں صرف تین فیصد سے بھی کم ووٹ ملے اور جموں میں بھی ان کی کارکردگی خراب ہی رہی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے اعداد و شمار صاف صاف اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال بد سے بدتر ہوئی ہے۔ ملی ٹنسی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، نوجوانوں کا جنگجوﺅں کی صفوں میں شامل ہونے کا رجحان بڑھ گیا ہے جبکہ سیکورٹی فورسز کے خودکشی کے واقعات میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
حسنین مسعودی نے کہا کہ جموں و کشمیر کا بجٹ عوامی شمولیت اور متعلقین سے مشاورت کے بغیر پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں زیر بحث آتا تھا اور عوام کے چنندہ نمائندے لوگوں کے احساسات، مطالبوں اور مانگوں کو اجاگر کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا بجٹ وہاں کے عوام سے مشاورت کے بغیر ترتیب دیا گیا ہے جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔ مسعودی نے مزدوری، روزگار، دیہی ترقی اور کوآپریٹو وغیرہ جیسے اہم شعبوں کے لئے کم رقومات مختص کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے شعبہ صحت اور تیسرے درجے کے ہیلتھ سیکٹر کو مضبوط بنانے کی طرف دی گئی توجہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ جموں اور سرینگر کے شہروں کے داخلی مقامات پر نئے زچگی کے ہسپتال قائم کئے جائیں۔ مسعودی نے کہا کہ سرینگر کے لیے شمالی اور جنوبی کشمیر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناربل اور پامپور میں زچگی ہسپتال قائم ہونے چاہئیں۔
انہوں نے پہلے سے ہی منظور شدہ نرسنگ کالجوں کے علاوہ کولگام اور شوپیان میں بھی نرسنگ کالجوں کے قیام کا مطالبہ کیا۔
حسنین مسعودی نے بیرونی ممالک سے سیب کی درآمد کو کشمیری سیب کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رجحان فوری طور پر ترک کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے تجارتی پروسیسنگ اور کولڈ اسٹوریج کی سہولت میں اضافے کا مطالبہ کیا تاکہ بار بار شاہراﺅں کے بند رہنے کی وجہ سے تازہ پھلوں کے ضیاع کو روکا جاسکے۔
مسعودی نے اپنے خطاب میں زعفران مشن کی مکمل ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا اور زعفران کی بھاری بھرکم پیداوار کے دعوﺅں کو مسترد کرتے ہوئے اسے بیرونی ممالک سے زعفران درآمد کرکے اسے کشمیر کے زعفران کے بطور متعارف کرانے کی ایک سازش قرار دیا