جنوبی کشمیر کے پہلگام علاقے میں سیب باغات کے مالکان کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہوئی غیر یقینی صورتحال سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نقلی ادویات اور بینک قرضوں سے میوہ صنعت سے وابستہ باغ مالکان اب سیب باغات بیچنے پر مجبور ہو چکے ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے باغ مالک محمد امین نے بتایا کہ' اس وقت ہم بہت پریشان ہیں کیونکہ میوہ باغات کی دیکھ بال میں کافی خرچہ آتا ہے۔ ایک طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم پہلے ہی بہت پریشان ہے دوسری طرف نقلی ادویات اور بینک قرضوں سے ہمیں کوئی راحت نہیں مل رہی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمیں اس سال اصلی ادویات نہیں ملے ہے۔ بلکہ نقلی ادویات سے درختوں کے پتے جل گیے ہے اور سکیب نکل آئی ہے'۔محمد امین نے کہا کہ 'حال ہی میں بارش اور ژالہ باری سے بھی ہمیں میوہ باغات کو کافی نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے ہمارے میوہ کی معقول قیمت نہیں مل رہی ہے۔
اگرچہ گزشتہ برس بھی ژالہ باری اور برف باری سے نقصان ہوا تھا تاہم انتطامیہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کے سی سی قرضہ معاف کریں گے مگر ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک قرض معاف نہیں کیا گیا۔ ہمیں انتظامیہ کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے۔'فاروق احمد نامی ایک اور کاشتکار نے کہا ہے کہ 'کسان اس وقت بہت تکلیف میں ہے۔ یہاں پر جو بھی جراثیم کش ادویات بازار میں فروخت کی جارہی ہے وہ نقلی ہے۔
انہوں نے انتطامیہ سے اپیل کی ہے کہ اس جانب توجہ دے تاکہ کسان راحت کی سانس لے سکیں۔'ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کسانوں نے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ بینک قرضوں میں ان کو رعایت دی جائے۔واضح رہے کہ میوہ صنعت وادی کی معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور تقریبا 70 فیصد آبادی بلا واستہ اس صنعت سے جڑی ہیں۔