اننت ناگ: نایاب چاول اور سرسوں کے بعد وادی کشمیر میں لیونڈر کی کاشتکاری کو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، تاکہ انٹگریٹڈ فارمنگ کے کلچر کو عام کیا جائے جس سے کسانوں کی ذرائع آمدن میں اضافہ ہو سکے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران ڈائریکٹر ایگریکلچر کشمیر چودھری محمد اقبال نے کہا کہ زراعت کے شعبہ کو زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں کسانوں کو لیونڈر کی کاشتکاری کی جانب متوجہ کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ سرکاری سیکٹر کے بعد نجی سیکٹر میں لیونڈر کے کلچر کو عام کرنے کے لیے کسانوں کو بیدار کیا جا رہا ہے، تاکہ کسانوں کی کھیتی محدود نہ رہے، چودھری نے کہا کہ لیونڈر کی کاشتکاری کم خرچ اور آسان ہے جسے کافی کم پانی کی ضرورت پڑتی ہے اور ادویات کا بھی خرچہ نہیں ہے۔
چودھری نے کہا کہ وادی میں کریوا اراضی کافی موجود ہے آنے والے وقت میں پہاڑی اور کریوا اراضی پر لیونڈر کی کاشتکاری کی جائے گی، وہیں نجی سیکٹر میں اس کی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لیے ہالیسٹک ایگریکلچر ڈیولاپمنٹ پروگرام کے تحت عام کسانوں کو سیب کے باغات خشک اراضی (نان اریگیٹڈ لینڈ) پر لیونڈر کی کاشتکاری کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں مختلف تربیتی اور بیداری پروگرام انعقاد کیا جا رہا ہے، تاکہ لیونڈر کی کاشتکاری کی جانب کسانوں کی دلچسپی کو بڑھایا جائے۔ چودھری نے کہا کہ مختلف سرکاری اسکیموں کے ذریعہ کسانوں کو سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکار کی یہی کوشش ہے کہ نوجوان خود روزگار کمائیں اور دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرے۔ نوجوان روزگار مانگنے والا نہیں بلکہ دینے والا بنے۔'
چودھری نے کہا کہ جموں کشمیر میں لیونڈر اور آیورویدک جڑی بوٹیاں کی کاشت کے لیے کافی گنجائش ہے۔ مرکزی سرکار نے لیونڈر کی کاشت کو پورے ملک میں ایک مشن کے طور پر لیا ہے، تاہم جموں کشمیر خاص کر وادی کی آب و ہوا اس کی کاشت کے لیے کافی موزوں ہے، اس لیے یہاں اس کی زیادہ سے زیادہ کاشت کرنے کا موقع ہے، لیونڈر نہ صرف بے روزگاری کو دورکرنے اور کمائی کرنے کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ گلوبل وارمنگ میں ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں کافی مدد گار ہے اور اس کی کاشت میں خرچ کم اور منافع زیادہ ہے۔'