پی وی سندھو سے جب ان کی پسندیدہ پی بی ایل ٹیم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ 'پہلے سیزن میں لکھنؤ (اودھ واریئرس) میں تھی پھر میں دوسری بار چینئی (چنئی سپر اسٹارز) میں اور آخری دو بار میں حیدرآباد کی ٹیم میں ہوں اور میرے لیے حیدرآباد کافی الگ ٹیم تھی کیونکہ یہ میری گھریلو ٹیم کے جیسی ہے اور مجھے کافی خوشی ملتی ہے جب میں گھریلو ٹیم کے لیے کھیلتی ہوں، حیدرآباد سے ہونے کی وجہ سے لوگ بھی یہی چاہتے تھے کہ میں حیدرآباد کی جانب سے ہی کھیلوں۔
اپنے شیڈول کو لے کر سندھ نے کہا کہ 'میرے اندر بیڈمنٹن کے لیے جذبہ اور جنون ہے اس لیے مجھے یہ کھیل کبھی بھی مشکل نہیں لگا اور کچھ حاصل کرنے کے لیے تو کچھ کھونا ہی پڑتا ہے'۔
ريو اولمپکس میں کئے گئے اپنی جدوجہد کو لے کر سندھو نے کہا کہ 'یہ بات سچ ہے کہ جب میں اولمپکس (ریو) کے لیے گئی تھی تب میں 20 تا 30 دنوں تک اپنے فون سے دور تھی لیکن مجھے برا نہیں لگا کیونکہ مجھے بعد میں چاندی کا تمغہ ملا تو میں ساری پریشانیاں بھول گئی۔
ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفیکیشن کے بارے میں سندھو نے کہا کہ 'ٹوکیو اولمپکس کے لیے کوالیفیکیشن جاری ہیں اور ایک ہمارے لیے ایک ایک ٹورنامنٹ اہم ہے، حالاںکہ اولمپک میں تمغے جیتنا آسان نہیں ہوگا لیکن ہر کوئی میڈل جیتنے کی بھرپور کوشش کرے گا'۔
لوگوں کہ توقعات لے کر سندھو نے کہا کہ 'انہیں اچھا لگتا ہے جب لوگ انہیں چیئر کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ 'کبھی آپ ہارتے ہو تو کبھی آپ جیتتے ہو، یہ سب زندگی کا حصہ ہے، باقی رہی بات دباؤ کی تو مجھے لوگوں کہ امیدیں پریشر نہیں بلکہ ذمہ داری لگتی ہے اور جب میں کورٹ پر جاتی ہوں تو میں اپنی سب سے بہتر کارکردگی پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
سندھو کے علاوہ حیدرآباد ہنٹر فرنچائزی کے مالک ڈاکٹر وی راؤ بھی موجود تھے، انہوں نے اپنا تجربہ بانٹتے ہوئے کہا کہ 'میں نے اپنے کالج کے دنوں سے بیڈمنٹن پسند کرتا آ رہا ہوں وہ بات الگ ہے کہ میں ان دنوں ایک ٹیم نہیں خرید پایا لیکن 4 برس پہلے مجھے لگا کی اب میں خرید سکتا ہوں'۔
سندھو کو اپنی ٹیم میں شامل کرنے کو لے کر ڈاکٹر وی راؤ نے کہا کہ 'یہ بہت مشکل تھا کیونکہ تمام ٹیمیں چاہتی تھیں کہ وہ اپنی ٹیم میں سندھو کو شامل کریں اور سب لوگ ان کو ٹیم سے شامل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بعد میں ایک لاٹری کی طرح سندھو ہماری ٹیم میں شامل ہوئیں۔