آئی پی ایل 2022 میں اب تک نصف میچز ہو چکے ہیں اور ایسے میں کچھ رجحانات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں جس میں میگا نیلامی سے قبل فرنچائزی کی جانب سے ٹیم میں برقرار رکھے گئے کھلاڑی مایوس کن کاکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ اَن کیپڈ بھارتی کھلاڑیوں نے اتنا ہی متاثر کیا ہے۔ پی ایل کی بدولت بھارتی قومی کرکٹ ٹیم کو کئی ایسے کھلاڑی ملے ہیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے، رواں آئی پی ایل سیزن میں بھی متعدد نوجوان ٹیلینٹ دیکھنے کو مل رہے ہیں جو مستقبل میں قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ Uncapped Young Indian Players Shown Excellent Performance
ریٹین کئے گئے کھلاڑیوں کی جدوجہد: معین علی، وراٹ کوہلی، محمد سراج، روہت شرما، کیرون پولارڈ، اکشر پٹیل کچھ ایسے بڑے نام ہیں جو ریٹین کئے جانے کے باوجود ابھی تک مکمل فارم میں نہیں آئے ہیں۔ وہیں عبدالصمد، یشسوی جیسوال اور اینریک نورکیا جیسے کھلاڑی بھی باقاعدگی سے پلیئنگ الیون میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ برقرار رکھے گئے کھلاڑیوں پر منحصر ممبئی انڈینز اور چنئی سُپر کنگز دونوں ٹیموں کے لیے یہ سیزن مایوس کن رہا ہے جبکہ ڈرافٹ کے ذریعہ جن کھلاڑیوں کو نئی ٹیموں نے شامل کیا گیا تھا ان کی فارم زبردست رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دونوں نئی ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل کی پہلی دو پوزیشن پر ہیں۔ برقرار رکھے گئے کھلاڑی ایک فرنچائز کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور جیسے جیسے ٹورنامنٹ اب آخر تک جائے گا ان ٹیموں کی کارکردگی ایسے کھلاڑیوں کی فارم پر منحصر کرے گی۔ IPL Analytical Report
اَن کیپڈ بھارتی کھلاڑیوں کاجلوہ: 10 ٹیموں کے آئی پی ایل میں ایک شک تھا کہ اتنے نئے کھلاڑی اس بڑے ٹورنامنٹ کے دباؤ میں کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے لیکن اگر جتیش شرما، تلک ورما، ویبھو اروڑہ، ابھینو منوہر، آیوش بدونی اور غیر ملکی کھلاڑی ڈیوالڈ بریوس کے کھیل کو دیکھیں تو ان کی ناتجربہ کاری کا کوئی احساس نہیں ہوگا۔ اگر ٹیموں کی تعداد آٹھ ہی رہتی تو شاید کچھ نام کھیلتے ہوئے نظر نہ آتے۔ بیٹنگ کے لیے سازگار پچوں نے ایسے نوجوان کھلاڑیوں کی مدد ضرور کی ہے کیونکہ انہیں آتے ہی جارحانہ انداز میں بلے بازی کرنے کا پوراموقع ملا ہے۔ ایسے میں ٹیموں میں موجود غیر ملکی کھلاڑیوں کو بھی اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے مستقل مزاجی دکھانے کے دباؤ کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر ساڑھے آٹھ کروڑ روپے میں خریدے گئے ٹِم ڈیوڈ نے ممبئی کے لیے بہت کم میچ کھیلے ہیں۔ اب تک کے 29 میچوں میں 11 مواقع ایسے آئے ہیں جب ٹیموں نے اپنے چار غیر ملکی کھلاڑیوں کا کوٹہ نہیں اپنایا ہے جو تمام سیزن کو ملا کر ایک ریکارڈ ہے۔
ٹاس پر یکطرفہ فیصلہ: اس سیزن میں لگاتار 30 میچوں میں کپتان نے ٹاس جیت کر باؤلنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم گزشتہ 12 میچوں میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے چھ بار میچ جیتے ہیں۔ دہلی کیپٹلز کے اسسٹنٹ کوچ شین واٹسن نے 'دی گریٹ کرکٹر' پوڈ کاسٹ پر کہا کہ ٹیموں کے لیے اوس کی پیش گوئی کرنا ناممکن ہے۔ ایسے میں کپتان ٹاس پر سوچ رہے ہیں کہ ہدف کا تعاقب کرنا بہتر رہے گا۔
ڈیتھ اوورز کادھوم دھڑاکا: ڈیتھ اوورز (17-20) میں اس سیزن میں اب تک اوسط رن ریٹ 11.53 ہے جو کسی بھی سیزن کے لیے 30 میچوں کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ ٹیمیں آخری چار اوورز میں 47 رنز بنا رہی ہیں۔ اس سے قبل یہ رن ریٹ عام طور پر 10 کے آس پاس رہا ہے لیکن 2020 میں یو اے ای میں کھیلا گیا سیزن اور اس بار اس کا اوسط 11.5 سے زیادہ رہا ہے۔ اس مرحلے میں اوس اور شارٹ باؤنڈریز کے سبب گیند بازوں کے لیے مشکلات کافی زیادہ رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق یارکر اور گُڈ لینتھ سے تھوڑی چھوٹی لمبائی کی گیندوں نے رن روکنے میں سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے۔ ان دونوں گیندوں پر رن ریٹ 5.76 اور 8.76 رنز فی اوور رہا ہے۔ تاہم اوس کی وجہ سے تیز گیندبازوں سے یارکر لینتھ میں غلطی بھی ہورہی ہے اور ایسے میں 16 ایسے ڈیتھ اوورز ڈالے گئے ہیں جن میں 20 یا اس سے زیادہ رن بنے ہیں۔
آخر کے چاراوورز میں اگر کم از کم 24 گیندیں ڈالنے والے گیندبازوں کو لیں تو ارشدیپ سنگھ، جسپریت بمراہ، ڈیوین براوو اور محمد شامی نے 9 رن فی اوور سے کم دیئے ہیں۔ محمد سراج، پرسِدھ کرشنا، ٹی نٹراجن، اویش خان اور مستفیض الرحمن جیسے ماہر گیندبازوں نے بھی 10رن فی اوور سے زیادہ رن دیئے ہیں۔ بطور ٹیم گجرات ٹائٹنز واحد ٹیم ہے جس نے اس مرحلے میں 10 سے کم 8.41 کے رن ریٹ سے رن دیئے ہیں۔ وہیں رائل چیلنجرز بنگلور اور ممبئی انڈینز نے 13 سے زائد کے ریٹ سے رن لُٹائے ہیں۔
سست آغاز کا رجحان: جہاں ڈیتھ اوورز میں ٹیمیں قہر برپا کررہی ہیں تو وہیں تقریباً تمام ٹیموں نے پاور پلے میں رن ریٹ بڑھانے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اس سیزن میں بلے بازوں نے اس مرحلے میں 27.04 کے اوسط اور 7.04 کی شرح سے رنز بنائے ہیں۔ اس وقت کئی ایسے کھلاڑیوں کا اسٹرائیک ریٹ 100 سے بھی نیچے رہا ہے۔ 50 یا اس سے زیادہ گیندیں کھیلنے والے 17 بلے بازوں کی فہرست میں آٹھ ایسے کھلاڑی ہیں جن کا اسٹرائیک ریٹ 110 سے کم کا ہے اور اس میں فاف ڈو پلیسس، کین ولیمسن اور وینکٹیش ایر جیسے نام ہیں۔ ابتدائی ہفتوں میں تیز گیند بازوں کو نئی گیند سے مدد ملتی رہی ہے لیکن آنے والے وقت میں پچ سست ہوتی جائیں گی اور اس وقت بلے بازوں کے تیور کو ذہن میں رکھنا دلچسپ ہوگا۔