حیدرآباد: کرکٹ شائقین اگر آئندہ ورلڈ کپ کے لیے اپنے فیورٹ کے بارے میں پوچھیں گے تو ہندوستان، انگلینڈ اور آسٹریلیا کا نام لیں گے۔ تاہم، پانچ دہائیوں پہلے کا منظرنامہ مختلف ہوتا۔ ہر کوئی ویسٹ انڈیز کی حمایت کرتا۔ یہ کہانی ہے دو مرتبہ کی عالمی چیمپئن اور دو مرتبہ کی T20 چیمپئن ویسٹ انڈیز کی، جو ورلڈ کپ 2023 کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر سکی۔ ون ڈے کرکٹ کی پانچ دہائیوں میں اس ٹیم کے لیے یہ بدترین لمحہ ہے۔
کرکٹ اور ویسٹ انڈیز: کرکٹ کے میدان پر پہلا ٹیسٹ 1877 میں کھیلا گیا۔ کرکٹ کا آغاز انگلینڈ میں ہوا۔ ون ڈے ہو یا ٹیسٹ، پہلا میچ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا۔ لیکن، ویسٹ انڈیز نے دنیا کو دکھایا کہ کھیل تفریحی اور دلچسپ بھی ہو سکتا ہے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل میں ویسٹ انڈیز نے زبردست برتری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کی ہر ٹیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کے درمیان واقع چھوٹے جزائر مل کر ویسٹ انڈیز کے نام سے ایک ملک بناتے ہیں اور یہ جزیرے دلچسپ لمحات، عالمی معیار کے کھلاڑی اور ایک چیمپئن ٹیم فراہم کرتے ہیں جس نے اپنی مضبوط پہچان بنائی۔
بلندی سے پستی تک: 70 اور 80 کی دہائیوں میں ویسٹ انڈیز کا کارنامہ بے مثال تھا اور اس دور میں اس ٹیم نے جو کچھ کیا اس کا مقابلہ کوئی ٹیم نہیں کر سکتی۔ 1975 میں، ویسٹ انڈیز نے افتتاحی ایڈیشن میں اپنے پانچوں کھیل جیتے اور فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر تمغہ اپنے نام کر لیا۔ کیریبین ٹیم نے آنے والے ایڈیشن میں اپنی وراثت کو جاری رکھا اور جیت درج کر کے ایک مضبوط اور فاتح ٹیم کے طور پر اپنی ساکھ قائم کیا۔
70 کی دہائی میں جب ون ڈے کرکٹ کا آغاز ہوا تو ویسٹ انڈیز تیزی نے اس میں بھی اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ ہندوستان نے 1983 کا ورلڈ کپ جیتا تھا لیکن اس ایڈیشن میں بھی رنر اپ ویسٹ انڈیز کو مضبوط اور فیورٹ ٹیم سمجھا جاتا تھا۔ ویسٹ انڈیز کی حالت ایسی تھی کہ بھارت کی جیت کو بھی فضول سمجھا جاتا تھا۔ اس کی وجہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم تھی جو 70 اور 80 کی دہائی میں ناقابل شکست سمجھی جاتی تھی اور اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ 1975 اور 1979 کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز نے ایک بھی میچ نہیں ہارا جب کہ 1983 میں اسے بھارتی ٹیم سے صرف ایک میں شکست ہوئی تھی۔ اگرچہ اس ورلڈ کپ کے بعد بھی ٹیم کا غلبہ برقرار رہا، لیکن وہ دوبارہ کبھی 50 اوور کے فارمیٹ میں ٹرافی پر ہاتھ نہیں لگا سکی۔
مزید پڑھیں: ICC World Cup 2023 یک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ کے متعلق اہم معلومات
جیسے جیسے 90 کی دہائی قریب آتی گئی، فاتح ٹیم کے کیریبین کھلاڑی ریٹائر ہوتے رہے۔ 1996 کے سیمی فائنل کے علاوہ یہ ٹیم کبھی بھی ورلڈ کپ کی بہترین چار ٹیموں کا حصہ نہیں رہی اور اب صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے کیونکہ وہ 2023 میں ہونے والے مارکی ایونٹ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی تھی۔ گرچہ ویسٹ انڈیز ٹیم نے 2012 اور 2016 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2004 میں چیمپئنز ٹرافی جیت گئی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مخالفین کو کچل دینے والا اپنا پرانا فخر دوبارہ کبھی بحال نہیں کر سکے۔
ویسٹ انڈیز کی پیس بیٹری: آج کے دور میں جب پیس بولنگ یا رفتار کی بات آتی ہے تو شائقین کے ذہنوں میں بریٹ لی، شعیب اختر، شان ٹیٹ، شین بانڈ اور ڈیل اسٹین جیسے بولرز کے نام آتے ہیں۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیندیں پھینکنے والے یہ گیند باز مختلف ٹیموں کا حصہ تھے اور مخالف بلے بازوں کے لیے خوف کا نام تھے۔ لیکن سوچے کہ اگر ایک ٹیم میں چار ایسے باؤلرز ہوں تو مخالف بلے بازوں کا کیا حشر ہو گا؟
مزید پڑھیں: Key Sri Lankan Players سری لنکا کے پانچ اہم کھلاڑی جو توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں
مائیکل ہولڈنگ، میلکم مارشل، اینڈی رابرٹس اور جوئل گارنر... آج کی نسل ان ناموں سے ناواقف ہے لیکن کرکٹرز اور کرکٹ شائقین کی پچھلی نسلیں ان سے ناواقف نہیں ہیں۔ ان چاروں کھلاڑیوں نے اچھے بلے بازوں کا شکار کیا اور قومی ٹیم کی عالمی سطح کا مضبوط ساکھ بنانے میں مدد کی۔ جو بھی ہو، یہ گیند باز اس دور کے بلے بازوں کے لیے دہشت کا دوسرا نام تھے۔ یہ کرکٹ کا دور تھا جب صرف بلے باز ہی بولر کی رفتار کو محسوس کر سکتا تھا۔ آج کے برعکس نہ تو اسپیڈومیٹر تھے، نہ ہیلمٹ اور نہ ہی بلے بازوں کے لیے گیند کی رفتار کو ماپنے کے لیے پیمانے اور نہ ہی گیند بازوں کے لیے باؤنس کرنے پر کوئی پابندی تھی۔ ویسٹ انڈیز کے گیند باز بلے بازوں کے ٹھوڑی سے کہنی، انگلی، ایڑی سے پسلیوں تک ہر حصے کا امتحان لیتے تھے۔
ویسٹ انڈیز کے گیند بازوں نے پوری دنیا کے بلے بازوں کو ایسے زخم دیے ہیں جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے۔ ان گیند بازوں کے سامنے بلے بازوں کا زخمی ہونا ایک عام سی بات تھی۔ ویسٹ انڈیز کے گیند بازوں کا خوف اب بھی بہت سے بلے بازوں کی سوانح عمریوں اور کرکٹ کی کہانیوں کا حصہ ہے۔ اس کوارٹیٹ (چار بلے بازوں) کی روایت کو بعد میں کورٹنی والش اور کورٹنی ایمبروز جیسے گیند بازوں نے آگے بڑھایا۔ لیکن 90 کی دہائی کے آخر تک ٹیم ایکسپریس باؤلنگ کے محاذ پر پیچھے رہنے لگی۔
ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ: اگر آپ آج ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کے نام پوچھیں تو بہت سے شائقین کرس گیل اور برائن لارا سے آگے نہیں سوچ سکتے۔ تاہم ایک دور تھا جب ویسٹ انڈیز کسی بھی باؤلنگ اٹیک کو تباہ کر دیا کرتا تھا۔ ان میں ڈیسمنڈ ہینس، گورڈن گرینیج، ویوین رچرڈز، کلائیو لائیڈ، گیری سوبرز، روہن کنہائی، ایلون کالیچرن کا نام قابل ذکر ہے۔