بھارت کا ایک مہینے کا ویسٹ انڈیز دورہ اگست - ستمبر میں ہونا ہے۔
بھارتی ٹیم 3 اگست سے 4 ستمبر تک ویسٹ انڈیز کے دورے پر رہے گی جس میں تین ٹوئنٹی - 20، تین ون ڈے اور دو ٹیسٹ کھیلے جائیں گے۔
دھونی کا بھارتی ٹیم میں مقام گذشتہ 12 مہینے سے بحث کا موضوع رہا ہے اور ورلڈ کپ کے دوران یہ بحث اور تیز ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ آئکن کرکٹر سچن تندولکر نے افغانستان کے خلاف میچ میں دھونی کی سست اننگز کے بعد ان کی نیت پر ہی سوال اٹھا دیا تھا۔
کپتان وراٹ کوہلی نے ہر بار اس بحث کو یہ کہتے ہوئے ختم کرنے کی کوشش کی تھی کہ ڈریسنگ روم کی دھونی کو مکمل طور پر حمایت حاصل ہے۔
سمجھا جاتا ہے کہ دھونی نے اپنے مستقبل کے بارے میں ٹیم مینیجمینٹ یا سلیکٹرز سے کوئی بات نہیں کی ہے۔
دھونی کے علاوہ سلیکٹرز کو ٹیم کے اہم کھلاڑیوں خاص طور پر تیز گیند بازوں جسپريت بمراه اور محمد سمیع کے بوجھ کو بھی دیکھنا ہے۔ دونوں کی کارکردگی ورلڈ کپ میں بہت شاندار رہی تھی۔
سلیکٹرز کو اوپنر شکھر دھون اور آل راؤنڈر وجے شنکر کی فٹنس کو بھی دیکھنا ہے۔ دونوں کھلاڑی اس وقت بنگلور میں قومی کرکٹ اکیڈمی میں ری ہیبی لٹیشن سے گزر رہے ہیں۔
گذشتہ سات جولائی کو 38 برس کے ہو نے والے دھونی کی عالمی کپ میں سست بلے بازی مسلسل تنقید کے گھیرے میں رہی ہے۔
بھارت کو دو عالمی کپ میں جیت دلانے والے دھونی کا ویسٹ انڈیز کے دورے میں ٹیم میں انتخاب ہونا مشکل ہے۔
عالمی کپ کے وقت ہی مانا جا رہا تھا کہ یہ دھونی کا آخری ورلڈ کپ ہوگا۔
خبروں کی مانیں تو چیف سلیکٹر ایم ایس كے پرساد کا کہنا ہے کہ دھونی اب ٹیم میں پہلا انتخاب نہیں رہ گئے ہیں اور انہیں اپنے مقام کے بارے میں خود غور کرنا ہوگا۔ پرساد پہلے بھی دھونی کی تنقید کر چکے ہیں۔
اگرچہ اس برس کے شروع میں آسٹریلیا میں ون ڈے سیریز میں دھونی کی شاندار کارکردگی کے بعد چیف سلیکٹر کو اپنے الفاظ تبدیل کرنے پڑے تھے۔
پرساد کا کہنا ہے کہ دھونی اب پہلے جیسے بلے باز نہیں رہ گئے ہیں اور چھٹے یا ساتویں نمبر پر آنے کے باوجود وہ ٹیم کو رفتار نہیں دے پا رہے ہیں جس سے ٹیم کو نقصان ہوا ہے۔
چیف سلیکٹر کا خیال ہے کہ دھونی کو اپنے ریٹائرمنٹ کے بارے میں اب خود غور کر لینا ہوگا کیونکہ وہ اگلے برس ہونے والے ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے سلیکٹرز کی اسکیمز میں نہیں ہیں۔ انہیں احترام کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہہ دینا چاہیے۔