پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں بھارت کی غیر متوقع شکست نے جہاں کرکٹ شائقین کو چونکا دیا تھا وہیں دوسرے سیمی فائنل میں روایتی حریف اور دفاعی چیمپئن آسٹریلیا پر انگلینڈ کی فتح واقعی ایک یادگار کامیابی تھی۔ اس سیمی فائنل مقابلے میں انگلینڈ کی ٹیم بہر لحاظ ورلڈ نمبر وَن نظر آئی۔
چوتھی بار فائنل میں قدم رنجہ انگلینڈ جسے بابائے کرکٹ بھی کہا جا تا ہے، اس سے پہلے تین موقعوں پر فائنل تک تو پہنچا لیکن قسمت نے اسے رنر ہی رکھا۔
ویسٹ انڈیزنے اسے 1979میں ہرایا تھا۔ 1987 میں اسے روایتی حریف آسٹریلیا کے ہاتھوں ہارنا پڑا تھا اور 1992 میں پاکستان نے انگلینڈ کو ہی ہرا کر پہلی مرتبہ عالمی کپ جیتا تھا۔
ستائیس سال بعد جب ایک مرتبہ پھر انگلینڈ کو فائنل کھیلنے کا موقع ملا ہے تو اس کی راہ میں بھی آسٹریلیا ہی آ کرکھڑا تھا لیکن ہوش اور جوش نے انگلینڈ کا ہی ساتھ دیا۔ اس طرح آسٹریلیا کوجس نے ایک دو نہیں چھ مرتبہ ورلڈ کپ سیمی فائنل کھیلا تھا اور ہر مرتبہ فائنل کے لئے کوالیفائی کیا تھا، پہلی مرتبہ اسے انگلینڈ نے ورلڈ کپ سیمی فائنل سے باہر ہونے کا مزا چکھا دیا۔
لیگ مر حلے میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کے بعد اگر انگلینڈ نے ہمت سے کام نہیں لیا ہوتا اور باقی دونوں میچ جیتنے میں اسے کامیابی نہیں ملتی اوروہ ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہرہو گیا ہوتا۔ انگلینڈ نے اسی موڑ پر جیسے ایک نئی تاریخ مرتب کرنے کی ٹھان لی تھی اور پھر یکے بعد دیگرے اس نے ہندستان اور نیوزیلینڈ دونوں کو ہرایا۔
اختتام پذیر عالمی کپ میں پاکستان اور سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے باوجود انگلینڈ کی کارکردگی بہت نمایاں رہی ۔ اُس نے شکست کو حاوی نہیں ہونے دیا اور پھرجو میچ جیتے وہ مردانہ وار طریقے سے اور واضح فرق سے جیتے۔ جنوبی افریقہ کو تو انگلینڈ نے 104 رن سے کے بڑے فرق سے ہرایا تھا۔ بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور افغانستان کو بھی اس نے آسانی سے ہرایا تھا۔ سری لنکا کے ہاتھوں شکست نے اسے مایوس یا محتاط نہیں کیا بلکہ اپنی کمزوریوں کو دور کر کے آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کیا۔
انگلینڈ نے 2015 کے بعد روایت پر رفتار زمانہ سے ہم آہنگی کو اہمیت دی اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ انگلینڈ نہ صرف ون ڈے کرکٹ میں نمبر ایک ہے بلکہ اب ورلڈ کپ جیتنے کے لیے آخری مرحلے تک بھی پہنچ چکا ہے۔
لارڈز میں اتوار کو کھیلے جانیوالے فائنل میں کاغذ پر انگلینڈ ہی مضبوط نظر آتا ہے۔ باوجودیکہ اسے نیوزی لینڈ کے خلاف ایسے کسی موڑ سے گزرنے سے بچنا ہو گا جہاں حریف کو حاوی ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔