سنہ 1960میں ریلیز ہوئی شاہکار فلم مغل اعظم کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جس طرح اس وقت تھی جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی اور آج کی نسل بھی اس کے نغموں سے سحراندوز ہوتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف جب نوشاد کے گھر ان سے ملنے کےلئے آئے ۔
وہ اس وقت ہارمونیم پر کوئی دھن تیار کررہے تھے اسی وقت کے آصف نے 50ہزار روپے کے نوٹوں کا بنڈل ہارمونیم پر پھینکا ،نوشاد کو اس بات پر کافی غصہ آیا اور نوٹوں کا بنڈل واپس کرتے ہوئے کہا ’’آپ اس طرح کا سلوک ان لوگوں کے ساتھ کرنا جو ایڈوانس کے بغیر فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا‘‘۔
بعد میں کے آصف کے منانے پر نوشاد نہ صرف فلم میں موسیقی دینے کے لئے تیار ہوگئے بلکہ اس کےلئے انہوں نے معاوضے کا ایک پیسہ تک نہیں لیا۔وہ بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھے اور انہیں اپنے اس شوق کو پروان چڑھانےکےلئے اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرنی پڑتی تھی۔
ان کے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم گھر ،یا موسیقی میں سے ایک کو منتخب کرلو۔اسی دوران لکھنؤ میں ایک ڈرامہ کمپنی آئی اور نوشاد نے آخر کار ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ ہی دیا ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر اس ڈرامہ کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جےپور،جودھپور،بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں ڈرامہ کمپنی کے ساتھ گھومتے رہے۔
نوشاد نے چھ دہائی طویل اپنے فلمی کریئر میں تقریباً 70فلموں میں موسیقی دی ہے۔
اس طویل سفر میں انہوں نے سب سے زیادہ فلمیں نغمہ نگار شکیل بدایونی کے ساتھ کیں اور ان دونوں کی جگل بندی ہمیشہ سپرہٹ ثابت ہوئی۔
نوشاد کے پسندیدہ گلوکار کے طورپر محمد رفیع کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔انہوں نے شکیل بدایونی اور محمد رفیع کے علاوہ لتا منگیشکر ،ثریا،اوما دیوی اور نغمہ نگارمجروح سلطان پوری کو بھی فلمی صنعت میں ممتاز مقام دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
نوشاد کی موسیقی سے آراستہ مشہور فلموں میں پریم نگر،بیجو باورا،آن،بابل،رتن،شاہ جہاں، دلاری،دیدار،درد،انداز،امر،مدر انڈیا،اڑن کھٹولا،کوہ نور ،مغل اعظم ،پالکی اور میرے محبوب قابل ذکر ہیں۔
نوشاد ایسے پہلے موسیقار تھے جنہوں نے پلے بیک سنگنگ کے میدان میں ساؤنڈ مکسنگ اور گانے کی ریکارڈنگ کو الگ رکھا۔فلم موسیقی میں ایکورڈین کا سب سے پہلے استعمال بھی انہوں نے ہی کیاتھا۔
ہندی فلمی صنعت کے وہ پہلے موسیقار تھے جنہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈ انہیں1953 میں ریلیز ہونے والی فلم بیجو باورا میں بہترین موسیقی کےلئے دیا گیا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہیں ا س کے بعد کوئی فلم فیئر ایوارڈ نہیں ملا۔
ہندوستانی سنیما میں قابل قدر خدمات انجام دینے کےلئے انہیں 1982 میں دادا صاحب پھالکےایوارڈ اور 1992 میں بدم بھوشن سے نوازا گیا۔
تقریباً چھ دہائی کے طیویل سفر میں اپنی موسیقی سے شائقین کا دل جیتنے والے موسیقار نوشاد پانچ مئی 2006 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔