قسمت ان سے کچھ اور ہی کرانا چاہتی تھی۔ کوشش تو بہت کی، ایسا نہیں تھا کہ انہوں نے اداکاری نہیں کی، کئی فلموں میں انہوں نے اداکاری بھی کی لیکن ناظرین نے ان کی اداکاری کو قبول نہیں کیا۔ ان کا خواب تھا کہ اداکاری کے ذریعہ فلم انڈسٹری میں اپنی منفرد شناخت بنائیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
مکیش چند ماتھر کی پیدائش 22 جولائی 1923 کو دہلی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد لالہ زورآور چند ماتھر ایک انجینئر تھے اور وہ چاہتے کہ مکیش ان کے نقش قدم پر چلیں لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ اس زمانے کے مشہور گلوکار و ادکار کندن لال سہگل کےبڑے پرستار تھے اور انہیں کی طرح گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔
مکیش نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا اور دہلی پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ سرویئر کی نوکری کرلی تھی جہاں انہوں نے سات مہینوں تک کام کیا۔ اسی دوران اپنی بہن کی شادی میں گیت گاتے وقت ان کے دور کے رشتے دار اور مشہور اداکار موتی لال نے ان کی آواز سنی اوروہ ان سے کافی متاثر ہوئے۔ موتی لال 1940 میں مکیش کو بمبئی لے آئے اور اپنے ساتھ رکھ کر پنڈت جگن ناتھ پرساد سے انہیں گلوکاری کی تعلیم دلانے کا انتظام کیا۔
اسی دوران 1940 میں خوبرو مکیش کو ایک ہندی فلم ’نردوش‘ میں اداکاری کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں انہیں موسیقار اشوک گھوش کے ہدایت کاری میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری کرنے کا بھی موقع ملا اور انہوں نے ’دل ہی بجھا ہوا ہو تو‘ اپنا پہلا گیت گایا۔ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے بعد مکیش نے ’دکھ سکھ‘ اور ’آداب عرض ‘ جیسی دیگر فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ کوئی شناخت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اسی دوران موتی لال مکیش کو اس وقت کے مشہور موسیقار انل وشواس کے پاس لیکر گئے اور ان سے گزارش کی کہ وہ اپنی فلم میں مکیش کو کوئی گیت گانے کو موقع دیں۔ سال 1945 میں ریلیز ہونے والی فلم ’پہلی نظر‘ میں انل وشواس کی موسیقی میں مکیش نے ’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ گایا۔ اس گیت کے بعد مکیش کچھ حد تک اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
اداکار ڈائرکٹر راج کپور کو مکیش کی آواز اتنی پسند آئی کہ دو چار گیتوں کو چھوڑ دیں تو راج کپور پر فلمائے گئے تمام گانے مکیش نے ہی گائے ہیں۔مکیش نے یہ گیت کے ایل سہگل کی طرز پر گایا تھا۔
اپنے شروعات دور کی فلموں میں سہگل کی گلوکاری کے انداز سے متاثر ہونے کے سبب مکیش ان کی ہی طرز پر گیت گایا کرتے تھے۔لیکن سال 1948 میں نوشاد کی موسیقی سے آراستہ فلم ’انداز‘ کے بعد مکیش نے اپنا یہ طرز بدل دیا اور اپنا خالص انداز اختیار کیا۔
مکیش کی دلی خواہش تھی کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری میں بھی نام کمائیں۔سال 1953 میں ان کی اداکاری والی فلم ’معشوق‘ اور 1956 کی فلم انوراگ کی ناکامی کے بعد مکیش نے اپنی ساری توجہ پلے بیک سنگنگ پر مرکوز کردی۔
اس کے بعد سال 1958 میں ریلیز ہونے والی فلم ’یہودی‘ کے کامیاب گانے ’یہ میرا دیوانہ پن ہے‘ سے مکیش کو بطور گلوکار ایک شناخت ملی۔ اس کے بعد مکیش نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ایک سے بڑھ کر ایک بہترین نغموں سے سامعین مسحور کیا۔
مکیش نے تین دہائی پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں 200 سے زیادہ فلموں کے لئے گیت گائے۔ مکیش کو چار بار فلم فیئر کے بہترین گلوکار کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ سال 1974 میں ریلیز ہوئی فلم ’رجنی گندھا‘ کے گیت ’کئی بار، یوں بھی دیکھا ہے ‘ کے لئے انہیں نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ان کے گائے ہوئے گانوں نے فلموں کو حیات جاودانی بخشی ۔ ان میں جس دیش میں گنگا بہتی ہے ، سنگم ، ملن ، پہچان ، شور ، روٹی کپڑا اور مکان اور کبھی کبھی جیسی فلمیں ہیں ۔ خاص طور سے فلم ”کبھی کبھی “ کے گانے ”میں پل دو پل کا شاعر ہوں“ کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ فلم’ تیسری قسم ، کے گانوں’سجن رے جھوٹ مت بولو ۔ خدا کے پاس جانا ہے ‘ بھی بچے بچے کی زبان پر تھا ۔
سال 1976 میں مکیش ، راج کپور کی فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ کے گیت ’چنچل، نرمل، شیتل‘ کی ریکارڈنگ پوری کرنے کے بعد امریکہ میں ایک کنسرٹ میں شامل ہونے کے لئے چلے گئے جہاں 27 اگست 1976 میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے قریبی دوست راج کپور کو جب ان کی موت کی خبر ملی تو ان کے منہ سے برجستہ نکل گیا ’’مکیش کے جانے سے میری آواز اور روح ، دونوں چلے گئے‘۔
مکیش نے گانے تو ہر قسم کے گائے مگر درد بھرے گیتوں کا چرچا مکیش کے گیتوں کے بغیر ادھورا ہے۔ان کی آواز نے درد بھرے گیتوں میں جو رنگ بھرا ہے اسے دنیا کبھی بھلانہیں سکے گی۔درد کا بادشاہ کہے جانے والے مکیش نے اگر زندہ ہوں میں اس طرح سے ،یہ میرا دیوانہ پن ہے(یہودی)او جانے والے ہو سکے تو لوٹ آنا(بندنی)،دوست دوست نہ رہا(سنگم)جیسے گانوں کو اپنی آواز کے ذریعہ درد میں ڈبو دیا تو وہیں کسی کی مسکراہٹ پے ہو نثار(انداز) جانے کہاں گئے وہ دن(میرا نام جوکر)،میں نے تیرے لئے ہی سات رنگ کے سپنے چنے(آنند)کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے(کبھی کبھی)چنچل شیتل نرمل کومل(ستیم شیوم سندرم)جیسے گانے گا کر پیار کے احساس کو اور گہرا کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہی نہیں مکیش نے اپنی آواز میں میرا جوتا ہے جاپانی (آوارہ) جیسا گانا گا کر لوگوں کو سارا غم بھول کر مست ہو جانے کا بھی موقع دیا۔ مکیش کے ذریعہ گائی گئی تلسی رامائن آج بھی لوگوں کوبھکتی کے جذبے سے جھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔