ETV Bharat / sitara

”جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو”

ہندی سنیما میں بطور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا شمار ان منتخب نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے گیت، غزل، بھجن اور حب الوطنی کے گانوں سے طویل عرصے تک فلم انڈسٹری پر راج کیا۔

image
image
author img

By

Published : Aug 3, 2020, 2:00 PM IST

Updated : Aug 3, 2020, 9:59 PM IST

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔

میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں

مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں

اتر پردیش کے قصبے بدایوں میں 3 اگست 1916 کو جب شکیل احمد کی پیدائش ہوئی تو شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوگا کہ آزاد بھارت میں یہ شہر اپنے اس نونہال کے نام سے جانا جائے گا جو بڑا ہوکر ہندی فلم دنیا کی معروف شخصیت کہلائے گا۔

اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شکیل 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔

شکیل نے علی مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج ، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔

شکیل احمد علی گڑھ سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946 ء تک مقیم رہے۔

اس کے بعد وہ فروری 1946 ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی ۔ اے آر کاردار کے اصرارپر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی رہائش گاہ بنالیا۔

نوشاد کے کہنے پر شکیل نے 'ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے' گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو کافی پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراً کاردار صاحب کی 'درد' کے لیے سائن کر لیا گیا۔

سنہ 1947 میں اپنی پہلی ہی فلم 'درد' کے گیت 'افسانہ لکھ رہی ہوں' کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔

انہوں نے 1940 میں سلمی سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں جو ان کے ساتھ بچپن سے ہی جوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے۔

میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں

مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں

اتر پردیش کے قصبے بدایوں میں 3 اگست 1916 کو جب شکیل احمد کی پیدائش ہوئی تو شاید ہی کسی کو یہ اندازہ ہوگا کہ آزاد بھارت میں یہ شہر اپنے اس نونہال کے نام سے جانا جائے گا جو بڑا ہوکر ہندی فلم دنیا کی معروف شخصیت کہلائے گا۔

اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شکیل 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔

شکیل نے علی مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج ، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔

شکیل احمد علی گڑھ سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946 ء تک مقیم رہے۔

اس کے بعد وہ فروری 1946 ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی ۔ اے آر کاردار کے اصرارپر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی رہائش گاہ بنالیا۔

نوشاد کے کہنے پر شکیل نے 'ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے' گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو کافی پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراً کاردار صاحب کی 'درد' کے لیے سائن کر لیا گیا۔

سنہ 1947 میں اپنی پہلی ہی فلم 'درد' کے گیت 'افسانہ لکھ رہی ہوں' کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔

انہوں نے 1940 میں سلمی سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں جو ان کے ساتھ بچپن سے ہی جوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔

Last Updated : Aug 3, 2020, 9:59 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.