ETV Bharat / sitara

دلیپ کمار کی سیاسی، تعلیمی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی - نیاکردار نیک مقصد کی تئیں

شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں اپنی سیاسی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دلیپ کمار نے اس کتاب میں اپنے پاکستان دورے کا بھی ذکر کیا ہے۔

فلموں سے ہٹ کر دلیپ کمار کا سیاسی، تعلیمی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی
فلموں سے ہٹ کر دلیپ کمار کا سیاسی، تعلیمی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی
author img

By

Published : Dec 10, 2020, 12:24 PM IST

ہندوستانی فلمی دنیا کے قدآور فن کار یوسف خان یعنی دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندراگاندھی، اٹل بہاری واجپئی، این سی پی رہنماء شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تعلقات کے ساتھ ہی اپنی سیاسی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو 'نیا کردار نیک مقصد کے تئیں' کے عنوان سے پیش کیا ہے جبکہ کتاب کے ابتدائی صفحہ پر مذکورہ کتاب کو اپنے والدین سے منسوب کیا ہے۔ اماں اور آغا جی (والد) کی یاد میں اور یہ شعر تحریر ہے۔

سکون دِل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں

ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں

مجھے توہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے

کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں بتایا کہ فلم سگینہ مہاتو کے بعد سیاسی منشاء کے بارے میں اکثر صحافی یہ جاننے کے خواہشمند رہتے تھے کہ کیا مجھے کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے اور سیاست میں سرگرم ہونے میں کوئی خاص دلچسپی ہے؟ مجھے اس بات کا جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی کہ سیاست میں میری شمولیت انتخابی مہم تک ہی محدود رہی تھی اور میں پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں نشست پر براجمان ہونے کے بارے میں نہیں سوچتا ہوں لیکن بعد میں راجیہ سبھا میں کانگریس نے نامزد کر دیا تھا۔

دلیپ کمار کے مطابق انہوں نے پہلی بار سنہ 1962 کے اوائل میں لوک سبھا امیدوار کے لئے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا، دراصل جب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ذاتی طور پر دہلی سے فون پر رابطہ کیا اور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے دفتر جانے اور ممبئی شمالی لوک سبھا حلقہ سے کانگریس امیدوار وی کے کرشنا مینن سے ملاقات کر کے ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کی درخواست کی کیونکہ ان کے مدمقابل اور کوئی نہیں بلکہ اچاریہ جے بی کرپلانی جو کہ کانگریس کے سابق صدر ہیں اور کسان مزدور پرجا پارٹی (کے ایم پی پی) کے امیدوار ہیں۔

دلیپ کمار نے کرشنا مینن کے بارے میں لکھا ہے کہ مینن نے کشمیر کے قضیہ پر ہندوستان کا مؤقف پیش کرنے کے لیے جنوری 1957 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلسل آٹھ گھنٹے خطاب کیا تھا۔ اس لیے ان کے لیے مہم میں حصہ لینا لازمی تھا۔ نہروجی نے مینن سے کہا تھا کہ دلیپ کمار اردو، ہندی، انگریزی کے ساتھ ساتھ مراٹھی بھی فراٹے سے بولتے ہیں۔ دلیپ کمار نے اس موقع پر رجنی پٹیل اور ان کی اہلیہ بکل پٹیل سے اپنی دوستی کا بھی ذکر کیا جنہوں نے 1970 کے عشرے میں کئی موقعوں پر محترمہ اندراگاندھی کے پروگراموں میں انہیں مدعو کیا اور ان کی ملاقاتیں بھی کروائی تھیں۔

دلیپ کمار کی واحد فلم گنگا جمنا کی فلمساز بھی تھے اور اس میں اہم رول بھی ادا کیا تھا لیکن ڈکیتی کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کو اس وقت سینسر بورڈ میں سخت سینسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر بی وی کیسکر اخلاقیات اور معاشرے میں پھیلتی بدامنی سے نوجوانوں کو روکنے کے مقصد کی بات کرتے تھے اور وہ اپنے اس بات کو لے کر بضد رہے لیکن اس درمیان دلیپ کمار نے وزیراعظم نہرو سے رابطہ کیا اور ان کی ہدایت پر صرف گنگا جمنا ہی نہیں بلکہ دوسری فلموں کو بھی ایک دن قبل کلیئر کردیا گیا جس پر سبھی نے چین کی سانس لی تھی۔

مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ ملک کے قدآور رہنما اور این سی پی رہنماء شرد پوار کے ساتھ اپنے رشتوں کے بارے میں دلیپ کمار نے بتایا کہ ان کے تعلقات پوار سے سنہ 1967 سے تھے، جب وہ ممبئی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بارامتی میں ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے گئے تھے۔ دلیپ کمار کے شرد راو (پوار کو اسی انداز میں پکارتے ہیں) سے نصف صدی پرانے تعلقات ہیں اور انہوں نے ہی سنہ 1980 میں ممبئی کا شیریف مقرر کیا تھا۔ واضح رہے کہ شرد پوار سنہ 1978 میں کانگریس سے بغاوت کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اور ریاست میں کافی مقبول و مضبوط ہوئے تھے اور آج بھی قدآور سیاست دان ہیں اور آج بھی ان سے کافی اچھے رشتے ہیں۔

دلیپ کمار نے اپنے پاکستان دورے کا بھی ذکر کیا ہے۔ سنہ 1935 میں ممبئی ہجرت کے بعد زندگی میں دو مرتبہ پاکستان گئے، پہلی مرتبہ اپریل 1988 آبائی وطن پشاور کے قصہ خوانی بازار اور کراچی و لاہور اور دوسری بار سنہ 1998 میں جب انہیں امتیازی پاکستان دینے کا اعلان کیا گیا اور اس درمیان انہوں نے عمران خان کے کینسر اسپتال کا بھی دورہ کیا تھا جو کہ ان کی والدہ کے نام سے منسوب ہے۔ اس عرصہ میں سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے نے سخت اعتراض کیا اور امتیاز پاکستان نہ لینے کے لیے کہا۔

ان کے خلاف احتجاج کے پیش نظر دلیپ کمار نے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے نئی دہلی پہنچ کر ملاقات کی اور کتاب میں واجپئی جی سے اپنے مراسم اور ملاقات کا خصوصی ذکر کیا، اس موقع پر واجپئی نے دلیپ کمار سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ کہا کہ 'آپ ایک فن کار ہیں اور فن کار کے لیے کسی بھی طرح کی سیاسی یا جغرافیائی پابندی نہیں ہونا چاہئے، آپ نے ہمیشہ انسانی حقوق اور انسانیت کی بقا کے لیے کام کیا ہے۔آپ جیسے فن کاروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتے استوار ہوں گے۔

آنجہانی شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کے بارے میں دلیپ صاحب کا کہنا ہے کہ 'میرا خیال ہے کہ وہ ضرور 'ٹائیگر' کے طور پر مشہور تھے لیکن شیوسینا سربراہ کو میں ایک 'شیر ببر' سمجھتا ہوں جو کہ اپنی قیادت اور سیاسی قد کے سبب اپنے پرستاروں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو سنہ 1966 کے پہلے سے جانتے تھے جب شیوسینا بھی نہیں بنی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے پیشے یعنی وہ میرے فن کی اور میں ان کے کارٹون کو پسند اور قدر کرتا تھا۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے، ان کی اہلیہ اور آنجہانی مینا تائی کا بھی تذکرہ دلیپ کمار نے انہیں دعائیں دیتے ہوئے نیک ۔ خواہشات کے ساتھ کیا ہے اور ادھو کو ایک باصلاحیت، باادب اور مہذب انسان بتاتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل کی پیش گوئی بھی کی ہے۔

انہوں نے سنجے دت کو جیل سے رہائی دلانے میں اداکار سنیل دت کی بال ٹھاکرے کے ذریعہ قانونی طور پر مدد کرنے کا بھی ذکر واضح طور پر کیا ہے، دلیپ کمار خود اس معاملے میں پیش پیش رہے تھے۔ کئی بار مظاہرے بھی کیے گئے۔

ممبئی فسادات کے دوران اور ریلیف کے کاموں میں ان کا اہم حصہ رہا، انجمن اسلام سے تعلیم حاصل کرنے والے دلیپ صاحب نے تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی مشہور رہے۔ شولاپور کے قریب لڑکیوں کا اسکول اور مدرسہ ان کی والدہ کے نام سے قائم کیا گیا اور اس کی دیکھ بھال ان کے مرحوم بھائی احسن خان کرتے رہے تھے۔

ہندوستانی فلمی دنیا کے قدآور فن کار یوسف خان یعنی دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندراگاندھی، اٹل بہاری واجپئی، این سی پی رہنماء شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تعلقات کے ساتھ ہی اپنی سیاسی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو 'نیا کردار نیک مقصد کے تئیں' کے عنوان سے پیش کیا ہے جبکہ کتاب کے ابتدائی صفحہ پر مذکورہ کتاب کو اپنے والدین سے منسوب کیا ہے۔ اماں اور آغا جی (والد) کی یاد میں اور یہ شعر تحریر ہے۔

سکون دِل کے لیے کچھ تو اہتمام کروں

ذرا نظر جو ملے پھر انھیں سلام کروں

مجھے توہوش نہیں آپ مشورہ دیجیے

کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں

دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں بتایا کہ فلم سگینہ مہاتو کے بعد سیاسی منشاء کے بارے میں اکثر صحافی یہ جاننے کے خواہشمند رہتے تھے کہ کیا مجھے کسی سیاسی پارٹی میں شامل ہونے اور سیاست میں سرگرم ہونے میں کوئی خاص دلچسپی ہے؟ مجھے اس بات کا جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی کہ سیاست میں میری شمولیت انتخابی مہم تک ہی محدود رہی تھی اور میں پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں نشست پر براجمان ہونے کے بارے میں نہیں سوچتا ہوں لیکن بعد میں راجیہ سبھا میں کانگریس نے نامزد کر دیا تھا۔

دلیپ کمار کے مطابق انہوں نے پہلی بار سنہ 1962 کے اوائل میں لوک سبھا امیدوار کے لئے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا، دراصل جب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ذاتی طور پر دہلی سے فون پر رابطہ کیا اور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے دفتر جانے اور ممبئی شمالی لوک سبھا حلقہ سے کانگریس امیدوار وی کے کرشنا مینن سے ملاقات کر کے ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کی درخواست کی کیونکہ ان کے مدمقابل اور کوئی نہیں بلکہ اچاریہ جے بی کرپلانی جو کہ کانگریس کے سابق صدر ہیں اور کسان مزدور پرجا پارٹی (کے ایم پی پی) کے امیدوار ہیں۔

دلیپ کمار نے کرشنا مینن کے بارے میں لکھا ہے کہ مینن نے کشمیر کے قضیہ پر ہندوستان کا مؤقف پیش کرنے کے لیے جنوری 1957 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلسل آٹھ گھنٹے خطاب کیا تھا۔ اس لیے ان کے لیے مہم میں حصہ لینا لازمی تھا۔ نہروجی نے مینن سے کہا تھا کہ دلیپ کمار اردو، ہندی، انگریزی کے ساتھ ساتھ مراٹھی بھی فراٹے سے بولتے ہیں۔ دلیپ کمار نے اس موقع پر رجنی پٹیل اور ان کی اہلیہ بکل پٹیل سے اپنی دوستی کا بھی ذکر کیا جنہوں نے 1970 کے عشرے میں کئی موقعوں پر محترمہ اندراگاندھی کے پروگراموں میں انہیں مدعو کیا اور ان کی ملاقاتیں بھی کروائی تھیں۔

دلیپ کمار کی واحد فلم گنگا جمنا کی فلمساز بھی تھے اور اس میں اہم رول بھی ادا کیا تھا لیکن ڈکیتی کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کو اس وقت سینسر بورڈ میں سخت سینسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر بی وی کیسکر اخلاقیات اور معاشرے میں پھیلتی بدامنی سے نوجوانوں کو روکنے کے مقصد کی بات کرتے تھے اور وہ اپنے اس بات کو لے کر بضد رہے لیکن اس درمیان دلیپ کمار نے وزیراعظم نہرو سے رابطہ کیا اور ان کی ہدایت پر صرف گنگا جمنا ہی نہیں بلکہ دوسری فلموں کو بھی ایک دن قبل کلیئر کردیا گیا جس پر سبھی نے چین کی سانس لی تھی۔

مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ ملک کے قدآور رہنما اور این سی پی رہنماء شرد پوار کے ساتھ اپنے رشتوں کے بارے میں دلیپ کمار نے بتایا کہ ان کے تعلقات پوار سے سنہ 1967 سے تھے، جب وہ ممبئی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بارامتی میں ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے گئے تھے۔ دلیپ کمار کے شرد راو (پوار کو اسی انداز میں پکارتے ہیں) سے نصف صدی پرانے تعلقات ہیں اور انہوں نے ہی سنہ 1980 میں ممبئی کا شیریف مقرر کیا تھا۔ واضح رہے کہ شرد پوار سنہ 1978 میں کانگریس سے بغاوت کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اور ریاست میں کافی مقبول و مضبوط ہوئے تھے اور آج بھی قدآور سیاست دان ہیں اور آج بھی ان سے کافی اچھے رشتے ہیں۔

دلیپ کمار نے اپنے پاکستان دورے کا بھی ذکر کیا ہے۔ سنہ 1935 میں ممبئی ہجرت کے بعد زندگی میں دو مرتبہ پاکستان گئے، پہلی مرتبہ اپریل 1988 آبائی وطن پشاور کے قصہ خوانی بازار اور کراچی و لاہور اور دوسری بار سنہ 1998 میں جب انہیں امتیازی پاکستان دینے کا اعلان کیا گیا اور اس درمیان انہوں نے عمران خان کے کینسر اسپتال کا بھی دورہ کیا تھا جو کہ ان کی والدہ کے نام سے منسوب ہے۔ اس عرصہ میں سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے نے سخت اعتراض کیا اور امتیاز پاکستان نہ لینے کے لیے کہا۔

ان کے خلاف احتجاج کے پیش نظر دلیپ کمار نے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی سے نئی دہلی پہنچ کر ملاقات کی اور کتاب میں واجپئی جی سے اپنے مراسم اور ملاقات کا خصوصی ذکر کیا، اس موقع پر واجپئی نے دلیپ کمار سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ کہا کہ 'آپ ایک فن کار ہیں اور فن کار کے لیے کسی بھی طرح کی سیاسی یا جغرافیائی پابندی نہیں ہونا چاہئے، آپ نے ہمیشہ انسانی حقوق اور انسانیت کی بقا کے لیے کام کیا ہے۔آپ جیسے فن کاروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتے استوار ہوں گے۔

آنجہانی شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کے بارے میں دلیپ صاحب کا کہنا ہے کہ 'میرا خیال ہے کہ وہ ضرور 'ٹائیگر' کے طور پر مشہور تھے لیکن شیوسینا سربراہ کو میں ایک 'شیر ببر' سمجھتا ہوں جو کہ اپنی قیادت اور سیاسی قد کے سبب اپنے پرستاروں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو سنہ 1966 کے پہلے سے جانتے تھے جب شیوسینا بھی نہیں بنی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے پیشے یعنی وہ میرے فن کی اور میں ان کے کارٹون کو پسند اور قدر کرتا تھا۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے، ان کی اہلیہ اور آنجہانی مینا تائی کا بھی تذکرہ دلیپ کمار نے انہیں دعائیں دیتے ہوئے نیک ۔ خواہشات کے ساتھ کیا ہے اور ادھو کو ایک باصلاحیت، باادب اور مہذب انسان بتاتے ہوئے ان کے بہتر مستقبل کی پیش گوئی بھی کی ہے۔

انہوں نے سنجے دت کو جیل سے رہائی دلانے میں اداکار سنیل دت کی بال ٹھاکرے کے ذریعہ قانونی طور پر مدد کرنے کا بھی ذکر واضح طور پر کیا ہے، دلیپ کمار خود اس معاملے میں پیش پیش رہے تھے۔ کئی بار مظاہرے بھی کیے گئے۔

ممبئی فسادات کے دوران اور ریلیف کے کاموں میں ان کا اہم حصہ رہا، انجمن اسلام سے تعلیم حاصل کرنے والے دلیپ صاحب نے تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی مشہور رہے۔ شولاپور کے قریب لڑکیوں کا اسکول اور مدرسہ ان کی والدہ کے نام سے قائم کیا گیا اور اس کی دیکھ بھال ان کے مرحوم بھائی احسن خان کرتے رہے تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.