ETV Bharat / sitara

MF Hussain: ایم ایف حسین کی برسی، دس روپے سے ایک کروڑ تیئیس لاکھ کمانے تک کا سفر

مقبول فدا حسین کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32 کروڑ روپیے قیمت آئی۔ ان کی ایک پینٹنگ جو ایک خاتون اور ایک گھوڑے پر مشتمل تھی، 1.23 کروڑ میں نیلام ہوئی۔

Great painter Maqbool Fida Hussain
عظیم مصور مقبول فدا حسین
author img

By

Published : Jun 9, 2021, 7:48 AM IST

Updated : Jun 9, 2021, 3:24 PM IST

دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جنہوں نے نہ صرف زندگی میں بے پناہ شہرت حاصل کی اور مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں بھلا نہیں پائے ۔

عظیم مصور مقبول فدا حسین کی پیدائش 17 ستمبر 1915 میں ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ہوئی تھی۔ گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔

ان کی مادری زبان گجراتی تھی، انہیں بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا، انہوں نے ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔

Painting of m Fida Hussain
مقبول فدا حسین کی پینٹنگ

حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہوجائیں لیکن ان کا رجحان تو پینٹنگ کی جانب تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔

ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کے والد ہی نے بناکر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے باپ کو بتایا۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔

Painting of m Fida Hussain
مقبول فدا حسین کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی

ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا ‘‘ بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو، ان کے باپ کے ان الفاظ کے ساتھ یہاں سے حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔

سال 1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی اور اس کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔

ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئیس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔

حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش 1947ء میں ہوئی تھی۔

great painter Maqbool Fida Hussain with Shahrukh Khan
عظیم مصور مقبول فدا حسین شارخ خان کے ساتھ

پچاس کی دہائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ 60 کے عشرے سے انہیں بھارت کا نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔

ان کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ ننگے پاؤں رہا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔

انہیں بھارت کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں 'پدم بھوشن' بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے ان کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے ۔

ایک وقت ایسا آیا جب ان کی شہرت بھارت کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک جا پہنچی اور انہیں ' ہندستان کا پکاسو' کہہ کر پکارا جانے لگا۔

دریں اثناء راگ مالا سیریز کے لیے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے بیرون ملک بھارت کی ثقافت، کلچر اور مذہبی روایات کو اپنے انداز میں متعارف کرایا۔

وہ بھارت کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔

اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار، جس کا نام انہوں نے ' ہارس اینڈ وومن ' رکھا تھا، لندن میں ایک کروڑ تیئیس لاکھ روپیے میں فروخت ہوا۔

مقبول فدا حسین کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32 کروڑ روپیے قیمت آئی۔ ان کی ایک پینٹنگ جو ایک خاتون اور ایک گھوڑے پر مشتمل تھی، 1.23 کروڑ میں نیلام ہوئی۔

Painting of m Fida Hussain
مقبول فدا حسین کی پینٹنگ

ایم ایف حسین کا ایشیا کے ان امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتا تھا جن کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے۔

انھیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپالو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا جہاں انھیں فوربس میگزین نے ''ہندستان کا پکاسو'' کے خطاب سے نوازا تھا۔

ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سن 1994 میں جب ان کی نگاہ مادھوری دیکشت پر پڑی تو وہ ان کی خوب صورتی اور حسن کے دلدادہ ہوگئے تھے۔

انہوں نے مادھوری کے ساتھ 'گج گامنی' کے نام سے' ٹیل آف تھری' سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوبصورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی شہرت کی وجہ ہی مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔

انہیں مادھوری کے فن سے دیوانگی کی حد تک لگاوٴ تھا۔ حسین صاحب کو مادھوری کی ایک فلم "ہم آپ کے ہیں کون" اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے اسے 70 مرتبہ دیکھا۔

اس سے قبل 1967ء میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم 'تھرو دی آئیز آف اے پینٹر' کے لئے' گولڈن گلوب ایوارڈ' حاصل کیا۔

اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے۔ نڈر تھے ، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔

ایم ایف حسین کی پینٹنگس پر جہاں ایک طرف کئی گوشوں سے ستائش کی گئی تھی وہیں دوسری طرف ان کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ستر کی دہائی میں ان کی شہرت نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے۔

انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائیں جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاوٴں کے مجسمے ہیں لہٰذا اگر انہوں نے اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔

سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جانیں لگیں۔ ایک تنظیم نے ان کے سر کی قیمت گیارہ اعشاریہ پانچ ملین روپے مقرر کی جس کے بعد وہ 2006 میں جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔

ستمبر 2007 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے فدا حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ حکومت نے اس سال مصوری کا معروف ”راجہ روی ورما ایوارڈ، فداحسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ستمبر 2008 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبول فدا حسین کی ایک متنازعہ پینٹنگ کے سلسلے میں فنکار کے کام کا دفاع کرتے ہوئے فن کا نمونہ قرار دیا اور ان کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی گئی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں لاتعداد فحش مجسمے اور تصویریں عام ہیں، ان سے لوگوں کے جذبات کیوں مجروح نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پینٹنگ فحش نہیں۔

عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصور مقبول فدا حسین 97 سال کی عمر میں 9 جون 2011 کو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔

(یو این آئی)

دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں پیدا ہوتی ہیں جنہوں نے نہ صرف زندگی میں بے پناہ شہرت حاصل کی اور مرنے کے بعد بھی برسوں تک لوگ انہیں بھلا نہیں پائے ۔

عظیم مصور مقبول فدا حسین کی پیدائش 17 ستمبر 1915 میں ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں ہوئی تھی۔ گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔

ان کی مادری زبان گجراتی تھی، انہیں بچپن سے ہی مصوری کا شوق تھا، انہوں نے ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے تھے۔

Painting of m Fida Hussain
مقبول فدا حسین کی پینٹنگ

حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہوجائیں لیکن ان کا رجحان تو پینٹنگ کی جانب تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔

ان کے چچا جنہیں یہ دکان ان کے والد ہی نے بناکر دی تھی، یہ دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور ان کے باپ کو بتایا۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول حسین کو گلے لگا لیا۔

Painting of m Fida Hussain
مقبول فدا حسین کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی

ان کے باپ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور کہا ‘‘ بیٹا جاؤ اور اپنی زندگی کو رنگوں سے بھر دو، ان کے باپ کے ان الفاظ کے ساتھ یہاں سے حسین کی پیشہ ورانہ فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔

سال 1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی اور اس کے بعد حسین نے مانو مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔

ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئیس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر یوں ہی اور آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔

حقیقت تو یہ ہے ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش 1947ء میں ہوئی تھی۔

great painter Maqbool Fida Hussain with Shahrukh Khan
عظیم مصور مقبول فدا حسین شارخ خان کے ساتھ

پچاس کی دہائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ 60 کے عشرے سے انہیں بھارت کا نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔

ان کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ ننگے پاؤں رہا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔

انہیں بھارت کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں 'پدم بھوشن' بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے ان کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے ۔

ایک وقت ایسا آیا جب ان کی شہرت بھارت کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک جا پہنچی اور انہیں ' ہندستان کا پکاسو' کہہ کر پکارا جانے لگا۔

دریں اثناء راگ مالا سیریز کے لیے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے بیرون ملک بھارت کی ثقافت، کلچر اور مذہبی روایات کو اپنے انداز میں متعارف کرایا۔

وہ بھارت کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔

اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار، جس کا نام انہوں نے ' ہارس اینڈ وومن ' رکھا تھا، لندن میں ایک کروڑ تیئیس لاکھ روپیے میں فروخت ہوا۔

مقبول فدا حسین کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32 کروڑ روپیے قیمت آئی۔ ان کی ایک پینٹنگ جو ایک خاتون اور ایک گھوڑے پر مشتمل تھی، 1.23 کروڑ میں نیلام ہوئی۔

Painting of m Fida Hussain
مقبول فدا حسین کی پینٹنگ

ایم ایف حسین کا ایشیا کے ان امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتا تھا جن کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے۔

انھیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپالو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا جہاں انھیں فوربس میگزین نے ''ہندستان کا پکاسو'' کے خطاب سے نوازا تھا۔

ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سن 1994 میں جب ان کی نگاہ مادھوری دیکشت پر پڑی تو وہ ان کی خوب صورتی اور حسن کے دلدادہ ہوگئے تھے۔

انہوں نے مادھوری کے ساتھ 'گج گامنی' کے نام سے' ٹیل آف تھری' سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوبصورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی شہرت کی وجہ ہی مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔

انہیں مادھوری کے فن سے دیوانگی کی حد تک لگاوٴ تھا۔ حسین صاحب کو مادھوری کی ایک فلم "ہم آپ کے ہیں کون" اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے اسے 70 مرتبہ دیکھا۔

اس سے قبل 1967ء میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم 'تھرو دی آئیز آف اے پینٹر' کے لئے' گولڈن گلوب ایوارڈ' حاصل کیا۔

اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے۔ نڈر تھے ، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔

ایم ایف حسین کی پینٹنگس پر جہاں ایک طرف کئی گوشوں سے ستائش کی گئی تھی وہیں دوسری طرف ان کو تنقیدوں کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ ستر کی دہائی میں ان کی شہرت نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ یکایک متنازعہ حیثیت اختیار کرگئے۔

انہوں نے کچھ ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنائیں جس کا جواز ان کے پاس یہ تھا کہ اجنتا اور ایلورا کی تاریخی وادیوں میں بھی اسی طرح کے دیوی دیوتاوٴں کے مجسمے ہیں لہٰذا اگر انہوں نے اپنے کینوس پر انہیں اتارا ہے تو اس میں کیا حرج ہے لیکن ان کا جواز کسی طرح قابل قبول نہ ہوا۔

سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جانیں لگیں۔ ایک تنظیم نے ان کے سر کی قیمت گیارہ اعشاریہ پانچ ملین روپے مقرر کی جس کے بعد وہ 2006 میں جلا وطنی پر مجبور ہوگئے۔

ستمبر 2007 میں کیرالہ ہائی کورٹ نے فدا حسین کو ایوارڈ دینے پر پابندی عائد کردی۔ کیرالہ حکومت نے اس سال مصوری کا معروف ”راجہ روی ورما ایوارڈ، فداحسین کو دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ستمبر 2008 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبول فدا حسین کی ایک متنازعہ پینٹنگ کے سلسلے میں فنکار کے کام کا دفاع کرتے ہوئے فن کا نمونہ قرار دیا اور ان کے خلاف دائر درخواست خارج کر دی گئی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ملک میں لاتعداد فحش مجسمے اور تصویریں عام ہیں، ان سے لوگوں کے جذبات کیوں مجروح نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پینٹنگ فحش نہیں۔

عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصور مقبول فدا حسین 97 سال کی عمر میں 9 جون 2011 کو لندن کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔

(یو این آئی)

Last Updated : Jun 9, 2021, 3:24 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.