مکیش کے رشتہ دار موتی لال کے کہنے پر انل بسواس نے مکیش کو اپنی ایک فلم میں گانے کا موقع دیا تھا لیکن انہیں مکیش کی آواز پسند نہیں آئی بعد میں انہوں نے مکیش کو وہ گانا اپنی آواز میں گا کر سنایا۔
انل بسواس کی پیدائش 7 جولائی 1914 کو مشرقی بنگال کے وارسال (اب بنگلہ دیش) میں ہوئی تھی۔ بچپن سے ہی ان کا رجحان نغموں اور موسیقی کی طرف تھا۔ محض 14 سال کی عمر سے ہی انہوں نے موسیقی کی محفلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا جہاں وہ طبلہ بجایا کرتے تھے۔
سال 1930 میں ہندستان اپنی آزادی کی جدو جہد میں عروج پر تھا۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے چھیڑی گئی مہم میں انل بسواس بھی کود پڑے۔ اس کام میں انہوں نے اپنی نظموں کا سہارا لیا۔ نظموں کے ذریعے انل وشواش ہم وطنوں میں بیداری پیدا کیا کرتے تھے جس کے سبب انہیں جیل بھی جانا پڑا۔
سال 1930 میں انل کلکتہ کے رنگ محل تھیئٹر سے جڑ گئے۔ جہاں وہ بطورایکٹر، موسیقار، اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ۔ سال 1932 سے 1934 تک وہ تھیئٹر سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کئی ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ گلوکاری بھی کی۔
رنگ محل تھیئٹر کے ساتھ ہی انل ہندوستان ریکارڈنگ کمپنی کے ساتھ بھی جڑ گئے۔ سال 1935 میں اپنے خوابوں کو تعبیر کی شکل دینے کے لیے وہ کلکتہ سے ممبئی آ گئے۔ سال 1935 میں آنے والی فلم ’دھرم کی دیوی‘ سے بطور میوزک ڈائریکٹر انیل نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی اس فلم میں انہوں نے اداکاری بھی کی۔
سال 1937 میں محبوب خان کی فلم ’جاگیردار‘ انل کے فلمی کیریئر کی اہم فلم ثابت ہوئی جس کی کامیابی کے بعد بطور موسیقار وہ فلید صنعت میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
سال 1942 میں انل بامبے ٹاکیز سے وابستہ ہوگئے اور 2500 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگے۔
سال 1943 میں انل کو بامبے ٹاکیز میں فلم ’قسمت‘ کے لیے موسیقی دینے کا موقع ملا۔ یوں تواس فلم میں ان کے تمام نغمے مقبول ہوئے لیکن ’ ’آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے -دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے‘ کی دھن والے نغمے نے آزادی کے ديوانوں میں ایک نیا جوش بھر دیا۔
اپنےنغموں کو انل نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ان کے نغموں نے انگریزوں کے خلاف ہندستانیوں کی جدوجہد کو ایک نئی سمت دی۔ یہ نغمے اس قدر مقبول ہوئے کہ فلم کے اختتام پر سامعین کی فرمائش پر اس سنیما ہال میں دوبارہ انہیں سنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی فلم ’قسمت‘ نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس فلم نے کلکتہ کے ایک سینما ہال میں مسلسل تقریبا ًچار سال تک چلنے کا ریکارڈ بنایا۔
سال 1946 میں انل نے بامبے ٹاکیز کو الوداع کہہ دیا اور وہ آزاد موسیقار کے طور پر کام کرنے لگے۔ آزاد موسیقار کے طور پر انل کو سب سے پہلے سال 1947 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بھوک‘ میں موسیقی دینے کا موقع ملا۔ رنگ محل تھیئٹر کے بینر تلے بنی اس فلم میں گيتادت کی آواز اورانل بسواس کی موسیقی سے آراستہ گیت’ آنکھوں میں اشک لب پہ رہے ہائے‘ سامعین میں بہت مقبول ہوا۔
سال 1947 میں ہی انل کی ایک اور سپر ہٹ فلم ’نیّا‘ ریلیز ہوئی تھی ۔ زہرہ بائی کی آواز میں انل وشواس کی موسیقی والے گیت ’ساون بھادو نین ہمارے، آئی ملن کی بہار رے‘ نے سامعین کو بے انتہا محظوظ کیا۔
سال 1948 میں آنے والی فلم ’انوکھا پیار‘ انل کے فلمی کیریئر کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی میں بھی اہم فلم ثابت ہوئی۔ فلم کی موسیقی تو ہٹ رہی، ساتھ ہی فلم کی پروڈکشن کے دوران ان کا رجحان مینا کپور کی جانب ہو گیا۔ بعد میں انل اور مینا کپور نے شادی کر لی۔
ساٹھ کی دہائی میں انیل نے فلم انڈسٹری سے تقریباً کنارہ کر لیا اور ممبئی سے دہلی آ گئے۔ اس درمیان انہوں نے سوتیلا بھائی، چھوٹی چھوٹی باتیں جیسی فلموں کی موسیقی دی۔ فلم چھوٹی چھوٹی باتیں، باکس آفس پر کامیاب نہیں رہی تاہم اس کی موسیقی سامعین کو پسند آئی۔ اس کے ساتھ ہی فلم کو قومی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
سال 1963 میں انل دہلی پرسار بھارتی میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے لگے اور سال 1975 تک کام کرتے رہے۔ سال 1986 میں موسیقی کے میدان میں ان کی قابل قدر تعاون کے پیش نظر انہیں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اپنی موسیقی سے تقریباً تین دہائی تک سامعین کے دل جیتنے والا یہ عظیم موسیقار 31 مئی 2003 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
بھارتی سنیما کی دنیا میں انل بسواس ایک ایسے موسیقار کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں جنہوں نے مكیش ، طلعت محمود سمیت کئی گلوکاروں کو کامیابی کیبام عروج پر پہنچایا۔
مکیش کے رشتہ دار موتی لال کے کہنے پر انل بسواس نے مکیش کو اپنی ایک فلم میں گانے کا موقع دیا تھا لیکن انہیں مکیش کی آواز پسند نہیں آئی بعد میں انہوں نے مکیش کو وہ گانا اپنی آواز میں گا کر سنایا۔
اس پر مکیش نے انل بسواس سے کہا، 'دادا بتائیے کہ آپ جیسا گانا بھلا کون گا سکتا ہے اگر آپ ہی گاتے رہیں گے تو پھر ہم جیسے لوگوں کو کس طرح گانے کا موقع ملے گا۔مکیش کی اس بات نے انل بسواس کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور انہیں رات بھر نیند نہیں آئی۔ اگلے دن انہوں نے اپنی فلم پہلی نظر میں مکیش کو بحیثیت گلوکار انتخاب کرلیا۔
انل بسواس کی پیدائش 7 جولائی 1914 کو مشرقی بنگال کے وارسال (اب بنگلہ دیش) میں ہوئی تھی۔ بچپن سے ہی ان کا رجحان نغموں اور موسیقی کی طرف تھا۔ محض 14 سال کی عمر سے ہی انہوں نے موسیقی کی محفلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا جہاں وہ طبلہ بجایا کرتے تھے۔
سال 1930 میں ہندستان اپنی آزادی کی جدو جہد میں عروج پر تھا۔ ملک کو آزاد کرانے کے لئے چھیڑی گئی مہم میں انل بسواس بھی کود پڑے۔ اس کام میں انہوں نے اپنی نظموں کا سہارا لیا۔ نظموں کے ذریعے انل وشواش ہم وطنوں میں بیداری پیدا کیا کرتے تھے جس کے سبب انہیں جیل بھی جانا پڑا۔
سال 1930 میں انل کلکتہ کے رنگ محل تھیئٹر سے جڑ گئے۔ جہاں وہ بطورایکٹر، موسیقار، اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ۔ سال 1932 سے 1934 تک وہ تھیئٹر سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کئی ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ گلوکاری بھی کی۔
رنگ محل تھیئٹر کے ساتھ ہی انل ہندوستان ریکارڈنگ کمپنی کے ساتھ بھی جڑ گئے۔ سال 1935 میں اپنے خوابوں کو تعبیر کی شکل دینے کے لیے وہ کلکتہ سے ممبئی آ گئے۔ سال 1935 میں آنے والی فلم ’دھرم کی دیوی‘ سے بطور میوزک ڈائریکٹر انیل نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی اس فلم میں انہوں نے اداکاری بھی کی۔
سال 1937 میں محبوب خان کی فلم ’جاگیردار‘ انل کے فلمی کیریئر کی اہم فلم ثابت ہوئی جس کی کامیابی کے بعد بطور موسیقار وہ فلید صنعت میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
سال 1942 میں انل بامبے ٹاکیز سے وابستہ ہوگئے اور 2500 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگے۔
سال 1943 میں انل کو بامبے ٹاکیز میں فلم ’قسمت‘ کے لیے موسیقی دینے کا موقع ملا۔ یوں تواس فلم میں ان کے تمام نغمے مقبول ہوئے لیکن ’ ’آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے -دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے‘ کی دھن والے نغمے نے آزادی کے ديوانوں میں ایک نیا جوش بھر دیا۔
اپنےنغموں کو انل نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ان کے نغموں نے انگریزوں کے خلاف ہندستانیوں کی جدوجہد کو ایک نئی سمت دی۔ یہ نغمے اس قدر مقبول ہوئے کہ فلم کے اختتام پر سامعین کی فرمائش پر اس سنیما ہال میں دوبارہ انہیں سنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی فلم ’قسمت‘ نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس فلم نے کلکتہ کے ایک سینما ہال میں مسلسل تقریبا ًچار سال تک چلنے کا ریکارڈ بنایا۔
سال 1946 میں انل نے بامبے ٹاکیز کو الوداع کہہ دیا اور وہ آزاد موسیقار کے طور پر کام کرنے لگے۔ آزاد موسیقار کے طور پر انل کو سب سے پہلے سال 1947 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بھوک‘ میں موسیقی دینے کا موقع ملا۔ رنگ محل تھیئٹر کے بینر تلے بنی اس فلم میں گيتادت کی آواز اورانل بسواس کی موسیقی سے آراستہ گیت’ آنکھوں میں اشک لب پہ رہے ہائے‘ سامعین میں بہت مقبول ہوا۔
سال 1947 میں ہی انل کی ایک اور سپر ہٹ فلم ’نیّا‘ ریلیز ہوئی تھی ۔ زہرہ بائی کی آواز میں انل وشواس کی موسیقی والے گیت ’ساون بھادو نین ہمارے، آئی ملن کی بہار رے‘ نے سامعین کو بے انتہا محظوظ کیا۔
سال 1948 میں آنے والی فلم ’انوکھا پیار‘ انل کے فلمی کیریئر کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی میں بھی اہم فلم ثابت ہوئی۔ فلم کی موسیقی تو ہٹ رہی، ساتھ ہی فلم کی پروڈکشن کے دوران ان کا رجحان مینا کپور کی جانب ہو گیا۔ بعد میں انل اور مینا کپور نے شادی کر لی۔
ساٹھ کی دہائی میں انیل نے فلم انڈسٹری سے تقریباً کنارہ کر لیا اور ممبئی سے دہلی آ گئے۔ اس درمیان انہوں نے سوتیلا بھائی، چھوٹی چھوٹی باتیں جیسی فلموں کی موسیقی دی۔ فلم چھوٹی چھوٹی باتیں، باکس آفس پر کامیاب نہیں رہی تاہم اس کی موسیقی سامعین کو پسند آئی۔ اس کے ساتھ ہی فلم کو قومی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
سال 1963 میں انل دہلی پرسار بھارتی میں بطور ڈائریکٹر کام کرنے لگے اور سال 1975 تک کام کرتے رہے۔ سال 1986 میں موسیقی کے میدان میں ان کی قابل قدر تعاون کے پیش نظر انہیں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اپنی موسیقی سے تقریباً تین دہائی تک سامعین کے دل جیتنے والا یہ عظیم موسیقار 31 مئی 2003 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔