حیدرآباد: ایلون مسک مسلسل فریڈم آف سپیچ اور نو سنسر شپ کے حوالے سے اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر خریدنے کے ساتھ ہی پلیٹ فارم پر بین کیے گئے اکاؤنٹس کو پلیٹ فارم پر واپس لانے کا اعلان کردیا تھا۔ ٹوئٹر کو خریدنے سے قبل بھی وہ سنسر شپ کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن بعض معاملات میں ان کی رائے مختلف ہے۔ خاص طور پر بھارت کے حوالے سے۔ بی بی سی کو دئے گئے انٹرویو میں ایلون مسک نے بھارت اور سنسر شپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں سوشل میڈیا کے قوانین سخت ہیں۔ ویب سائٹ بھارتی صارفین کو اتنی آزادی نہیں دے سکتی جتنی امریکی صارفین اور دیگر مغربی ممالک کے لیے دستیاب ہے۔
مسک نے بھارت کے بارے میں کیا کہا؟
مسک نے بتایا کہ ٹوئٹر کئی بار بھارت کے مواد کو بلاک کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کمپنی بھارتی قوانین پر عمل نہیں کرتی ہے تو اس کے ملازمین کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ مسک نے انٹرویو میں کہا، 'سوشل میڈیا پر کیا دیکھے گا؟ بھارت میں اس حوالے سے سخت قوانین ہیں اور ہم کسی ملک کی قوانین کے خلاف نہیں جا سکتے۔ تاہم ہمارے پاس یہ اختیار ہے کہ یا تو ہمارے لوگ جیل جائیں، یا ہم قوانین پر عمل کریں۔
مسک سنسر شپ کی مخالفت کرتے رہے ہیں
انہوں نے یہ تمام باتیں اس وقت کہی جب ان سے بی بی سی کی پوسٹس بلاک کرنے کے بارے میں پوچھا گیا۔ ٹویٹر پر پہلے بھی سنسرشپ اور کنٹینٹ ماڈریشن ہوتا تھا۔ مسک اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں، مس نے اس کی وجہ سے ایک میٹنگ میں وجے گڈے کو بہت کچھ کہا تھا۔ ایلون مسک نے یہ تمام باتیں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہی۔ مسک نے گزشتہ سال اکتوبر میں 44 بلین ڈالر میں ٹویٹر کو خریدا تھا۔ انہوں نے اپریل میں ہی ٹوئٹر کے اسٹیک خریدے اور بعد زاں انہوں نے کمپنی کو خریدنے کی پیشکش کی تھی۔
مزید پڑھیں:
ایلون مسک ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ مواد کسی کے لیے قابل اعتراض ہو سکتا ہے، جب کہ وہی مواد دوسروں کے لیے قابل اعتراض نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسے میں کون فیصلہ کرے گا کہ کیا قابل اعتراض ہے اور کیا نہیں، اور کس کنٹینٹ کو ٹوئٹر سے ہٹایا جانا چاہیے۔ اس بنیاد پر مسک نے جیک ڈورسی کے دور میں لاگو کیے گئے بہت سے قوانین کو بھی تبدیل کیا ہے۔ جیک ڈورسی ٹوئٹر پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد کے بارے میں بہت حساس ہوتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ٹویٹر پر کوئی نفرت انگیز مواد پوسٹ نہیں کیا جانا چاہیے، چاہے وہ کسی طبقے کے لیے اچھا ہو۔ لیکن ایلون مسک اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔