2015 میں نئے آئین بنانے والوں نے فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ 1990 کے پرانے آئین میں وزیراعظم کو ایوان کے تحلیل کرنے کی سفارش کرنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ نئے آئین میں وزیراعظم کو اس کا اختیار حاصل ہے۔
گذشتہ 6 ماہ کے دوران کے پی شرما اولی شرما نے اپنے مخالفین کو حیران کردیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے دو مواقع پر 20 سمبر اور 22 نومبر کو ایوان تحلیل کرنے کی سفارش کردی۔ اولی کے مخالفین کے مطابق ہر بار اولی وسط مدتی انتخابات کےلیے ایوان کو تحلیل کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔
فی الوقت نیپال میں سیاسی بحران مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ صدر کے اچانک اقدام کے بارے میں نیپال کے آئینی ماہرین میں تجسس پایا جارہا ہے۔ کچھ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نیپال کے آئینی نظام کے ساتھ دھوکہ ہے، جب کہ کچھ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس طاقت کی کمی ہے۔ اس کمی کی جانکاری صدر کے پاس آنے پر اسی وقت آرٹیکل 76 (5) کو لاگو کرسکتی ہیں۔ تاہم، یہ کہا جارہا ہے کہ آرٹیکل 76 (5) اس وقت تک موثر نہیں ہوسکتا جب تک کہ اولی وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی نہیں دے دیتے۔
صدر نے بھی بغیر کچھ سونچے سمجھے اور آئین کے آرٹیکل کی توثیق کے بغیر ہی اتقاق کرلیا تھا۔ اولی نے 20 دسمبر 2020 جو تجویز پیش کی صدر نے اس سے اتفاق کیا تھا اسی طرح ایک بار پھر گذشتہ 22 مئی کو بھی صدر نے اولی کی جانب سے جو بات کہی تھی اسی کے مطابق احکامات صادر کردیئے۔ لیکن وزیراعظم کا سکریٹریٹ اور صدر کا دفتر ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ اولی اور بھنڈاری، دونوں کا تعلق نیپال کی کمیونسٹ پارٹی سے ہے، جسے یونائٹیڈ مارکسی لیننسٹ پارٹی بھی کہا جاتا ہے۔
بھنڈاری کو اولی کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے شوہر مدن بھنڈاری کے انتقال کے بعد اولی کو پارٹی صفوں میں شامل اعلیٰ مقام دلایا۔ مدن بھنڈاری مئی 1993 کو ایک سڑک حادثہ میں ہلاک ہوگئے تھے۔ صدر بھنڈاری پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اولی کی مدد میں آگے رہیں۔
اولی کے حامی انہیں دو وجوہات کی بنا پر پسند کرتے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ 2015 میں نیپال کے آئین کے اعلان کے وقت اولی نے بھارت مخالف رخ اختیار کیا تھا جس کے بعد بھارت۔نیپال سرحد پر ناکہ بندی کی وجہ سے نیپالی عوام کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ 20 مئی 2020 کو نیپال کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا تھا جس میں کچھ متنازع علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا تھا جبکہ ان علاقوں پر بھارت اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ نیپال نے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا تھا جس میں بعض ایسے علاقوں کو نیپال کاحصہ دکھایا گیا جسے بھارت اپنا قرار دیتا ہے۔
نیپال کی سپریم کورٹ کی جانب سے 7 وزرا کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیا، جس کے بعد سیاسی بحران کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔ اس کے بعد اولی نے پارٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس بلایا اور پھر اپنی سماج وادی پارٹی کے مہانتا ٹھاکر سے بات کی۔
اس کے بعد اولی حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ صدر کے دفتر پہنچے۔ آئین کے آرٹیکل 76 (5) کے مطابق انہوں نے ایک خط پیش کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سی پی این-یو ایم ایل کے 121 ممبران اور جنتا سماج وادی پارٹی نیپال (جے ایس پی-این) کے 32 ممبران انہیں دوبارہ وزیراعظم بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔
بالآخر گذشتہ 22 مئی کو نیپال کی صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرتے ہوئے وسط مدتی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ نیپال میں 12 اور 19 نومبر کو وسط مدتی انتخابات ہوں گے۔ صدر ودیا دیوی بھنڈاری نے نیپالی کانگریس کے صدر شیر بہادر دیوبا اور وزیراعظم کے پی شرما اولی کے حکومت بنانے کے دونوں دعوؤں کو مسترد کردیا۔
کے پی شرما اولی اور حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں نے اراکین پارلیمنٹ کے دستخط کے ساتھ ایک خط صدر ودیا دیوی بھنڈاری کو پیش کیا تھا جس میں نئی حکومت بنانے کا دعوی کیا گیا تھا۔ اولی حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین سے چند منٹ قبل صدر کے دفتر پہنچے تھے۔ اولی نے ایک خط پیش کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ وہ اپنی پارٹی سی پی این-یو ایم ایل کے 121 ممبران اور جنتا سماج وادی پارٹی نیپال (جے ایس پی-این) کے 32 ممبران کی آئین کے آرٹیکل 76 (5) کے مطابق دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لیے حمایت کرتے ہیں۔ اسی وقت ، نیپالی کانگریس کے صدر ، شیر بہادر دیوبا نے 149 ممبران اسمبلی کی حمایت کا دعوی کیا۔ دیبا وزیر اعظم کے عہدے کے دعوے کے لئے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ صدر کے دفتر پہنچے۔
واضح ہوکہ سی پی این-یو ایم ایل نیپال کی سب سے بڑی جماعت ہے جس کے 275 ممبران والے ایوان میں 121ممبران ہیں۔ اکثریت سے حکومت سازی کے لئے 138 نشستوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اولی کی کارکردگی اور صدر کے اقدامات آئینی ہے یا نہیں اس پر بحث جاری ہے اور عوام کا تاثر ہے کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام نیپال کے مفاد میں نہیں ہے۔
سریندرا پھویال
سینئر و آزاد صحافی (کھٹمنڈو)