ETV Bharat / opinion

رام مندر کی تعمیر: 50 سالہ مقدمہ محض 40 روز میں مکمل

دلیپ اوستھی نے رام مندر کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ایودھیا کے متنازعہ مقام کے تنازعے کو ٹرننگ پوائینٹ کانگریس نے دیا لیکن سنگھ پریوار فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیشہ چوکس ثابت ہوا۔

رام مندر کی تعمیر:ایک فیصلہ جو محض چالیس روز میں پچاس سالہ سفر کر آیا
رام مندر کی تعمیر:ایک فیصلہ جو محض چالیس روز میں پچاس سالہ سفر کر آیا
author img

By

Published : Jul 27, 2020, 7:54 PM IST

سنگھ پریوار نے بہت پہلے 1980میں ہی رام مندر /بابری مسجد معاملے کو ہندتوا کے کاز کیلئے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ذرئعہ جنوری 1984 میں ایودھیا کی سریو ندی کے کنارے ایک بھاری مظاہرہ کروایا تھا جس کے دوران ’’تالا کھولو تالا کھولو، جنم بھومی کا تالا کھولو‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔بی جے پی نے وی ایچ پی کی اس ایجی ٹیشن کا فائدہ اٹھایا۔رام جنم بھومی کے تالے کھولنے اور فروری 1986 میں فیض آباد کی ایک عدالت کے ہندوؤں کو یہاں عبادت کرنے کا حق دینے سے ویشو ہندو پریشد کی ایجی ٹیشن میں مزید تیزی آئی۔اگست 1989 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رام جنم بھومی/بابری مسجد معاملہ کی شنوائی کی۔

جب وزیرِ اعظم نریندرا مودی 5 اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد رکھیں گے امید ہے کہ وہ زائد از پچاس سال پُرانے اور شائد اب تک کے پُر پیچ اور پُر تشدد فرقہ وارانہ مسئلے کا باب بند کر رہے ہونگے۔

(ایودھیا میں) رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ سنگھ پریوار کے اس حد تک دل کے قریب تھا کہ یہ مسئلہ حال کے تقریباََ سبھی انتخابی منشورات میں شامل رہتا آیا ہے۔البتہ سنگھ پریوار کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ (رام مندر کی تعمیر کا ) یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کوششیں گول میز مذاکرات کے ارد گرد ہوتی رہیں ۔اس دوران میں ایسے درجن بھر مذاکرات ہوئے لیکن انکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔

رام مندر کی تعمیر کے مقصد کی عمل آوری کیلئے نریندرا مودی کا دوسری بار اقتدار میں لوٹنا ضروری ہوا یہاں تک کہ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آئے اور رام مندر کی تعمیر کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔مودی نے سُپریم کورٹ کے راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور پھر چیف جسٹس کی قیادت والے پانچ رُکنی بنچ کو دہائیوں تک التوا میں رہے اس معاملے کو نپٹانے میں فقط چالیس دن لگے۔

سنگھ پریوار نے بہت پہلے 1980میں ہی رام مندر /بابری مسجد معاملے کو ہندتوا کے کاز کیلئے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ذرئعہ جنوری 1984 میں ایودھیا کی سریو ندی کے کنارے ایک بھاری مظاہرہ کروایا تھا جس کے دوران ’’تالا کھولو تالا کھولو، جنم بھومی کا تالا کھولو‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔

بی جے پی نے وی ایچ پی کی اس ایجی ٹیشن کا فائدہ اٹھایا۔رام جنم بھومی کے تالے کھولنے اور فروری 1986 میں فیض آباد کی ایک عدالت کے ہندوؤں کو یہاں عبادت کرنے کا حق دینے سے ویشو ہندو پریشد کی ایجی ٹیشن میں مزید تیزی آئی۔اگست 1989 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رام جنم بھومی/بابری مسجد معاملہ کی شنوائی کی۔

نومبر 1989 میں عام انتخابات سے کچھ قبل تب اس معاملے کی تاریخ میں ایک پیچیدہ موڑ آیا کہ جب اُسوقت کی راجیو گاندھی سرکار نے ویشو ہندو پریشد کو متنازعہ مقام کے پاس پوجا کرنے کی اجازت دی۔ویشو ہندو پریشد نے مندر کے معاملے پر ایک ہسٹیریا کھڑا کرنا شروع کیا۔1990 میں سنگھ پریوار کے لاکھوں کارکن سرکاری پابندی کے باوجود ایودھیا پہنچ گئے اور جب انہوں نے متنازعہ استھان کی جانب مارچ شروع کیا،اُسوقت کے وزیرِ اعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے سرکار کو چلینج کرنے نکلی اس بھیڑ پر فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔پولس کی فائرنگ سے بھیڑ میں شامل زائد از تیس افراد ہلاک ہوگئے۔بہر حال 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے فوائد نمایاں تھے کہ اس نے 45 نشستیں جیت لیں لیکن ودھان سبھا میں بی جے پی نے 57 نشستوں سے 193 تک بہت بھاری برتری حاصل کی۔

کانگریس کی قیادت کو کچھ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ وہ بی جے پی کے گرجتے ہوئے رتھ کو کس طرح روک پائے۔ستمبر 1990 میں سومناتھ سے ایودھیا تک کی (لال کرشن) ایڈوانی کی رتھ یاترا میں بھاری ہجوم شریک ہوئے اور اس یاترا نے پورے ملک میں ایک ہندو لہر دوڑانے میں مدد دی۔حالانکہ متنازعہ معاملے میں، تالے کھولنے کے سمیت، زیادہ تر اہم موڑ (ٹرننگ پوائینٹ) کانگریس نے مہیا کرائے لیکن سنگھ پریوار صورتحال کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیشہ چوکس رہا ۔وزیرِ اعظم وی پی سنگھ کے پاس تاہم کم از کم سنگھ پریوار کی حمائت کو کم کرنے کیلئے ایک ٹھوس منصوبہ تھا۔انہوں نے کامندل کا توڑ کرنے کیلئے مندل کو سامنے لایا۔7 اگست 1990 کو وی پی سنگھ کی سرکار نے مندل کمیشن کی سفارشات کو قبول کیا اور اعلان کیا کہ وہ ریزرویشن اسکیم کو نافذ کرے گی جسکے تحت 25 فیصد نوکریاں دیگر پسماندہ طبقات (ادر بیک وارڈ کلاسز) کو دی جانی تھیں۔مندل پلان کچھ وقت کیلئے کارآمد رہا لیکن بی جے پی کو زیر کرنے میں ناکام رہا۔

حتمی نمائش تب ہوئی کہ جب 6 دسمبر 1992 کو متنازعہ مسجد کو زمین بوس کردیا گیا۔مجھے اور کئی دیگر صحافیوں کو کار سیوکوں نے دبوچا،ہمارے ٹیپ ریکارڈر اور کیمرہ چھین کر ہمیں زمین پر بٹھایا گیا اور تب تک ہمیں گالیاں دی جاتی رہیں کہ جب تک نہ بھاری ڈھانچے (مسجد) کو چار گھنٹوں کے وقت میں گرا دیا گیا۔ اس معاملے میں بھی کانگریسی وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ کی غیر فعالیت ہمیشہ ہی قابلِ تحقیقات رہے گی۔ 1993 میں پی وی نرسمہا راؤ نے متنازعہ مقام کے نزدیک 67 ایکڑ زمین حاصل کی۔ 1992 میں اسکے انہدام کے بعد متنازعہ مقام کو مکمل طور نا قابلِ پہنچ بنا دیا گیا تھا۔ جون 2009 میں لبراہن کمیشن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے لال کرشن ایڈوانی،مُرلی منوہر جوشی،کلیان سنگھ اور اُما بھارتی سمیت سنگھ پریوار کے 68 لیڈروں کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

30 ستمبر 2010 کو تب ایک اور ملک گیر ہنگامہ کھڑا ہوا کہ جب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے میں متنازعہ مقام کی متنازعہ تقسیم کی دو طرفہ تقسیم کیلئے کہا لیکن سُپریم کورٹ نے مئی 2011 میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر امتناع لگایا۔

جنوری 2019 میں سُپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کی قیادت میں اس معاملے کی شنوائی شروع کی اور درمیانہ داری کی صلاح دی۔ درمیانہ داری کی کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد سُپریم کورٹ نے 6اگست 2019 سے اس معاملے کی روز بہ روز شنوائی شروع کی اور وعدہ کے مطابق چالیسویں روز فیصلہ سنایا۔ایودھیا میں نئے رام مندر کی تعمیر،جسکی بنیاد 5 اگست کو ڈالی جا رہی ہے، کی نگرانی کیلئے ایک ٹرسٹ بنایا گیا ہے ۔

سنگھ پریوار نے بہت پہلے 1980میں ہی رام مندر /بابری مسجد معاملے کو ہندتوا کے کاز کیلئے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ذرئعہ جنوری 1984 میں ایودھیا کی سریو ندی کے کنارے ایک بھاری مظاہرہ کروایا تھا جس کے دوران ’’تالا کھولو تالا کھولو، جنم بھومی کا تالا کھولو‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔بی جے پی نے وی ایچ پی کی اس ایجی ٹیشن کا فائدہ اٹھایا۔رام جنم بھومی کے تالے کھولنے اور فروری 1986 میں فیض آباد کی ایک عدالت کے ہندوؤں کو یہاں عبادت کرنے کا حق دینے سے ویشو ہندو پریشد کی ایجی ٹیشن میں مزید تیزی آئی۔اگست 1989 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رام جنم بھومی/بابری مسجد معاملہ کی شنوائی کی۔

جب وزیرِ اعظم نریندرا مودی 5 اگست کو ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد رکھیں گے امید ہے کہ وہ زائد از پچاس سال پُرانے اور شائد اب تک کے پُر پیچ اور پُر تشدد فرقہ وارانہ مسئلے کا باب بند کر رہے ہونگے۔

(ایودھیا میں) رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ سنگھ پریوار کے اس حد تک دل کے قریب تھا کہ یہ مسئلہ حال کے تقریباََ سبھی انتخابی منشورات میں شامل رہتا آیا ہے۔البتہ سنگھ پریوار کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ (رام مندر کی تعمیر کا ) یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ کوششیں گول میز مذاکرات کے ارد گرد ہوتی رہیں ۔اس دوران میں ایسے درجن بھر مذاکرات ہوئے لیکن انکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا۔

رام مندر کی تعمیر کے مقصد کی عمل آوری کیلئے نریندرا مودی کا دوسری بار اقتدار میں لوٹنا ضروری ہوا یہاں تک کہ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آئے اور رام مندر کی تعمیر کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔مودی نے سُپریم کورٹ کے راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور پھر چیف جسٹس کی قیادت والے پانچ رُکنی بنچ کو دہائیوں تک التوا میں رہے اس معاملے کو نپٹانے میں فقط چالیس دن لگے۔

سنگھ پریوار نے بہت پہلے 1980میں ہی رام مندر /بابری مسجد معاملے کو ہندتوا کے کاز کیلئے استعمال کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ذرئعہ جنوری 1984 میں ایودھیا کی سریو ندی کے کنارے ایک بھاری مظاہرہ کروایا تھا جس کے دوران ’’تالا کھولو تالا کھولو، جنم بھومی کا تالا کھولو‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔

بی جے پی نے وی ایچ پی کی اس ایجی ٹیشن کا فائدہ اٹھایا۔رام جنم بھومی کے تالے کھولنے اور فروری 1986 میں فیض آباد کی ایک عدالت کے ہندوؤں کو یہاں عبادت کرنے کا حق دینے سے ویشو ہندو پریشد کی ایجی ٹیشن میں مزید تیزی آئی۔اگست 1989 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رام جنم بھومی/بابری مسجد معاملہ کی شنوائی کی۔

نومبر 1989 میں عام انتخابات سے کچھ قبل تب اس معاملے کی تاریخ میں ایک پیچیدہ موڑ آیا کہ جب اُسوقت کی راجیو گاندھی سرکار نے ویشو ہندو پریشد کو متنازعہ مقام کے پاس پوجا کرنے کی اجازت دی۔ویشو ہندو پریشد نے مندر کے معاملے پر ایک ہسٹیریا کھڑا کرنا شروع کیا۔1990 میں سنگھ پریوار کے لاکھوں کارکن سرکاری پابندی کے باوجود ایودھیا پہنچ گئے اور جب انہوں نے متنازعہ استھان کی جانب مارچ شروع کیا،اُسوقت کے وزیرِ اعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے سرکار کو چلینج کرنے نکلی اس بھیڑ پر فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔پولس کی فائرنگ سے بھیڑ میں شامل زائد از تیس افراد ہلاک ہوگئے۔بہر حال 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے فوائد نمایاں تھے کہ اس نے 45 نشستیں جیت لیں لیکن ودھان سبھا میں بی جے پی نے 57 نشستوں سے 193 تک بہت بھاری برتری حاصل کی۔

کانگریس کی قیادت کو کچھ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ وہ بی جے پی کے گرجتے ہوئے رتھ کو کس طرح روک پائے۔ستمبر 1990 میں سومناتھ سے ایودھیا تک کی (لال کرشن) ایڈوانی کی رتھ یاترا میں بھاری ہجوم شریک ہوئے اور اس یاترا نے پورے ملک میں ایک ہندو لہر دوڑانے میں مدد دی۔حالانکہ متنازعہ معاملے میں، تالے کھولنے کے سمیت، زیادہ تر اہم موڑ (ٹرننگ پوائینٹ) کانگریس نے مہیا کرائے لیکن سنگھ پریوار صورتحال کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیشہ چوکس رہا ۔وزیرِ اعظم وی پی سنگھ کے پاس تاہم کم از کم سنگھ پریوار کی حمائت کو کم کرنے کیلئے ایک ٹھوس منصوبہ تھا۔انہوں نے کامندل کا توڑ کرنے کیلئے مندل کو سامنے لایا۔7 اگست 1990 کو وی پی سنگھ کی سرکار نے مندل کمیشن کی سفارشات کو قبول کیا اور اعلان کیا کہ وہ ریزرویشن اسکیم کو نافذ کرے گی جسکے تحت 25 فیصد نوکریاں دیگر پسماندہ طبقات (ادر بیک وارڈ کلاسز) کو دی جانی تھیں۔مندل پلان کچھ وقت کیلئے کارآمد رہا لیکن بی جے پی کو زیر کرنے میں ناکام رہا۔

حتمی نمائش تب ہوئی کہ جب 6 دسمبر 1992 کو متنازعہ مسجد کو زمین بوس کردیا گیا۔مجھے اور کئی دیگر صحافیوں کو کار سیوکوں نے دبوچا،ہمارے ٹیپ ریکارڈر اور کیمرہ چھین کر ہمیں زمین پر بٹھایا گیا اور تب تک ہمیں گالیاں دی جاتی رہیں کہ جب تک نہ بھاری ڈھانچے (مسجد) کو چار گھنٹوں کے وقت میں گرا دیا گیا۔ اس معاملے میں بھی کانگریسی وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ کی غیر فعالیت ہمیشہ ہی قابلِ تحقیقات رہے گی۔ 1993 میں پی وی نرسمہا راؤ نے متنازعہ مقام کے نزدیک 67 ایکڑ زمین حاصل کی۔ 1992 میں اسکے انہدام کے بعد متنازعہ مقام کو مکمل طور نا قابلِ پہنچ بنا دیا گیا تھا۔ جون 2009 میں لبراہن کمیشن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے لال کرشن ایڈوانی،مُرلی منوہر جوشی،کلیان سنگھ اور اُما بھارتی سمیت سنگھ پریوار کے 68 لیڈروں کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

30 ستمبر 2010 کو تب ایک اور ملک گیر ہنگامہ کھڑا ہوا کہ جب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے میں متنازعہ مقام کی متنازعہ تقسیم کی دو طرفہ تقسیم کیلئے کہا لیکن سُپریم کورٹ نے مئی 2011 میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر امتناع لگایا۔

جنوری 2019 میں سُپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کی قیادت میں اس معاملے کی شنوائی شروع کی اور درمیانہ داری کی صلاح دی۔ درمیانہ داری کی کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد سُپریم کورٹ نے 6اگست 2019 سے اس معاملے کی روز بہ روز شنوائی شروع کی اور وعدہ کے مطابق چالیسویں روز فیصلہ سنایا۔ایودھیا میں نئے رام مندر کی تعمیر،جسکی بنیاد 5 اگست کو ڈالی جا رہی ہے، کی نگرانی کیلئے ایک ٹرسٹ بنایا گیا ہے ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.