اگرچہ اب دُنیا بھر میں لاک ڈاون کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں، اور اقتصادی سرگرمیاں نئے سرے سے شروع کی جارہی ہیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ ’نئی طرز زندگی‘ ہرگز پہلے جیسی نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک جانب دُنیا کے مختلف خطوں میں انتظامیہ کو لوگوں کی نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ، تعلیمی و تجارتی سرگرمیوں اور تفریح کی سرگرمیوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات کرنے ہونگے اور دوسری جانب عام لوگوں کو بھی حکام کی ہدایات پر مکمل عمل کرتے ہوئے عقل مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں جاپان کی تفریحی پارکوں کی ایک مثال دی جاسکتی ہے۔ وہاں جولائی کے مہینے میں ان پارکوں کو دوبارہ کھول دیا گیا، جنہیں اس سال فروری میں کووِڈ19 کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔
تفریحی پارکوں کا انتظام و انصرام چلانے والے ایک بڑے گروپ نے پارکوں میں آنے والے سیاحوں کے لئے رہنما ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ان ہدایات کا مقصد پارکوں میں کام کرنے والے ملازمین اور تفریح کے لئے آنے والے سیاحوں، دونوں کی صحت محفوظ بنانا ہے۔ ان رہنما قواعد میں جسمانی دوریاں بنائے رکھنے، جراثیم کش مادہ (سینی ٹائزر) استعمال کرنے، جسم کے درجہ حرارت کی جانچ کرنے اور فیس ماسک استعمال کرنے جیسی ہدایات شامل ہیں۔ یہ ہدایات چاپان کی مشرقی اور مغربی تفریحی پارک ایسوسی ایشن نے جاری کردی ہیں اور انہیں جاپان کی تیس سے زیادہ بڑے تفریحی پارکوں میں لاگو کیا گیا۔ ان ہدایات میں کہا گیا، ’’گاہگوں کی خدمت کا نیا طریقہ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ آگر آپ نے ماسک لگا بھی رکھی ہے، تب بھی آپ آنکھوں کی مسکراہٹ سے ایک دوسرے کا استقبال کرسکتے ہیں۔ آپ کو کسی سے ہاتھ ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نیز یہ کہ گاہگوں کی خدمت کے حوالے سے منتظمین کو اتنی چھوٹ دیجئے کہ وہ لوگوں کا استقبال کرتے ہوئے کم سے کم الفاظ کا استعمال کرسکیں۔ نئی طرز زندگی میں الفاظ سے زیادہ اشاروں اور حرکات و سکنات کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ گانا بجانا بھی وائرس کے پھیلاو کا موجب بن سکتا ہے۔‘‘ پارکوں میں آنے والے لوگوں سے یہ گزارش بھی کی گئی کہ وہ تفریح کے دوران چیخ و پکار سے گریز کریں یہاں تک کہ اگر وہ رولر کوسٹر (جھولوں) پر بھی سوار ہوں تب بھی چیخنے چلانے سے اعتراض کریں۔
ظاہر ہے کہ اس طرح کی ساری ہدایات کا مقصد کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا ہے، جو کسی بھی متاثرہ شخص کے باتیں کرنے یا اس کے چیخنے چلانے کی وجہ سے ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار سے قطروں کی صورت میں اسکے منہ سے باہر آسکتا ہے اور دوسروں کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
جو لوگ رولر کوسٹر پر سوار ہوئے ہوں، اُنہیں یہ سن کر عجیب لگے گا کہ اس پر سواری کے دوران چیخنے چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ رولر کوسٹر پر سوار ہوکر چیخنا چلانا اس قدر عام بات ہے کہ بعض مشہور رولر کوسٹرز کا نام ہی چیخ و پکار کی اصطلاحوں کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ جیسے کہ جرمنی کے رہین لینڈ پلاٹنیٹ کی ایک پارک میں قائم رولر کوسٹر کا نام ’سکائی سکریم‘ (چیختے ہوئے آسمان سر پر اٹھانا) رکھا گیا ہے۔ امریکا کے کیلی فورنیا میں واقع سِکس فلیگ میجک موئنٹین میں موجود رولر کوسٹر جھولے کا نام ’سکریم‘ رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب یہ جھولے سینکڑوں فٹ بلندی سے نیچے کی طرف اور پھر واپس سینکڑوں فٹ کی بلندی کی جانب جاتے ہیں، تو ان پر سوار ہر شخص کے منہ سے یقینی طور پر چیخ نکل ہی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجبوراً ہدایات میں رولر کوسٹر پر چیخنا چلانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جاپان کی فوجی کیو ہائی لینڈ نامی تفریخی پارک میں رولر کوسٹر پر پارک کے دو ملازمین کو سوار ہوکر چیخنے چلانے سے گریز کرتے ہوئے ویڈیو پر دکھایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو تفریح پر آنے والوں کے لئے جاری کردی گئی ہے اور اسکے آخر میں ایک پیغام دیا گیا ہے کہ ’’براہ کرم اپنے دل ہی دل میں چیخئے‘‘۔ سوشل میڈیا پر ایک ٹرنڈ شروع ہوگئی ہے، جس میں رولر کوسٹر پر سوار ہوکر سنجیدہ چہرے کے ساتھ جھولا جھولنے کی مقابلہ آرائی کی جارہی ہے۔
جہاں تک میری جانکاری کا تعلق ہے، دُنیا کی دیگر تفریحی پارکوںکے حوالے سے اس طرح کی کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا کے اولانڈو کی ڈزنی ورلڈ پارک کو بھی جولائی میں لوگوں کےلئے کھول دیا گیا لیکن یہاں چیخنے چلانے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ دراصل تفریح گاہوں میں اس طرح کی پابندیاں نافذ کرنا کوئی آسان کام بھی نہیں ہے۔ جیسے کہ پارکوں میں چیخنے چلانے پر پابندی عائد کرنے اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں سزا یا جرمانہ عائد کرنے کے نتیجے میں لوگ ان پارکوں کا رُخ کرنا ہی چھوڑ سکتے ہیں۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان کی تفریحی پارکوں میں رولر کوسٹر پر چیخنے چلانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں لوگ قواعد و ضوابط پر مکمل طور عمل کررہے ہیں۔ یعنی وہ چیخنے چلانے سے مکمل احتراض کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ سب کچھ یہاںکے لوگوں میں پائے جانے والے اعلیٰ درجے کے نظم و ضبط اور اُن کے کلچر کی پاسداری کی عادت کا نتیجہ ہے۔ جاپان میں لوگ خوش اخلاق ہیں۔ وہ یہ سوچ کر کہ ان کی وجہ سے وائرس نہ پھیلے، ماسک کا استعمال کرنا اپنی مارڈن زندگی میں ایک رواج بنا چکے ہیں۔ یہاں کے لوگ خود اور اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کےلئے دہائیوں سے ماسک کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ سماجی سطح پر خوش اخلاقی کا اس قدر جنون موجودہ وبا کے دوران مزید بڑھ جائے گا اور ممکن ہے کہ ملک میں رولر کوسٹر پر سوار ہوکر چیخنے چلانے سے گریز کرنے کا عمل بھی مقبول ہوگا اور لوگ اس پر کامیابی کے ساتھ عمل کریں گے۔
اس طرح کا کامیاب تجربہ شاید مشرقی ایشاء کے دیگر علاقوں میں بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ تاہم دُنیا کے بیشتر علاقوں میں لوگوں کا اس طرح کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کرنا مشکل ہے۔
بہرحال یہ بات بالکل طے ہے کہ ’نئی طرز زندگی کے ساتھ ایک مختلف قسم کی دُنیا پروان چڑھ رہی ہے۔ ہمیں اپنے دلوں کے اندر ہی خوشی کے مارے چیخنا چلانا سیکھنا ہوگا۔
اتانو بسواس
( پروفیسر آف سٹیٹسٹکس، انڈین سٹیٹسکل انسٹی چیوٹ، کولکتہ)