سنہ 1765میں ننھے جنگبازوں کے اجداد جو اب بھارتی فوج کا ایک ممتاز حصہ ہیں، نے یورپی ڈسپلن اور اسلحہ کا استعمال کرنے والے پہلے نیپالی پرتھی نارین کی قیادت میں خود کو آس پڑوس کے پہاڑی قبائل کے بیچ خود کو ایک بڑی اور مؤثر طاقت کے طور پر ابھارا۔
نیپال میں کاٹھمنڈو،للیتاپتن اور بٹا گاؤں کو مات دیکر اور پرتھی نارائن کی وفات کے بعد انکی بیوہ اور بھائی کے تحت ، جو انکے نوزائدہ بیٹے کے ریجنٹ بنے،انہوں نے اپنی سلطنت کماون تک بڑھا دی۔سنہ 1970میں انہوں نے المورا پر قبضہ کیا اور خود کو رام گنگا تک سارے ملک کا آقا بنادیا۔
کماون سے اپنے کیرئر کو مغرب کی جانب لیجاتے ہوئے گورکھوں نے گڑھوال میں حملہ کیا لیکن نیپال پر چینی جارحیت کی خبر کی وجہ سے اس کی فتح میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے حملہ آور فوج اپنے ہی ملک کے دفاع میں مدد کرنے کے لئے گڑھوال سے پیچھے ہٹ گئی۔چند سال بعد تاہم گورکھا حملے کی لہر دوبارہ مغرب کی سمت میں بہنے لگی۔سرینگر،جو اُسوقت گڑھوال کے راجا کی راجدھانی تھی،پر فروری 1803 میں حملہ کیا گیا اور راجا جنوب کی جانب پیچھے ہٹ گیا۔انہوں نے براہاٹ پر ایک بیکار موقف اپنایا لیکن وہاں سے،پہلے دون اور پھر سہارنپور، کھدیڑ دئے گئے۔حراساں شدہ راجا پردیومان شاہ نے یہاں آکر اپنی ساری جائیداد اور تاج کے بدلے چند ایک لاکھ روپے کی رقم اکٹھا کی۔اس رقم سے انہوں نے نئی فوج کھڑا کی اور حملہ آوروں پر حملہ کیا،جنہوں نے عمر سنگھ تھاپا کی قیادت میں دہرا پر قبضہ کیا لیکن انہیں شکست ہوئی اور ہلاک کر دئے گئے۔’’ہمالئن ماونٹینز‘‘ میں جے بی فراسر تذکرہ کرتے ہیں کہ پالی گڑھ جو ایک مقدس وادی یمنوتری سے بہت دور نہیں ہے، وہاں کے سادھو نے گڑھوال کے آخری راجا پردیومان شاہ کی بد نصیبی ،گورکھاؤں کی طاقت کے عروج اور انگریزوں کے اسے حتمی طور محکوم بنانے کے بارے میں پیشگوئی کی تھی۔
برطانوی فورسز شوالک پہاڑی سلسلہ کے جنوب ڈھلوان پر پہنچیں ٹھیک اسی طرح جس طرح ان پہاڑوں کے شمالی ڈھلوان پر گورکھاؤں کی لہر چھا گئی تھی۔کرنل برن نے تقریباََ اسی دوران سہارنپور تک انہی دنوں میں مارچ کیا تھا، جب عمر سنگھ تھاپا نے اکتوبر 1803میں دہرا پر قبضہ کیا۔
گورکھا دور بڑا سخت تھا،اس دوران کئی لوگوں کو اپنے علاقوں سے ہجرت کرنا پڑا تھا۔غلامی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا،ہر طرح کے نادہندگان کو تاحیات بیگار پر لیا جاتا رہا۔کہا جاتا ہے کہ نا انصافی اور ظلم حکمرانی کی بنیاد تھی یہاں تک کہ نادہندگان کے خاندانوں کو اکثر بقایہ جات کی وصولی کیلئے فروخت کر دیا جاتا تھا۔فی الواقع ’’گرکھانی‘‘ گورکھا زیادتی کا دوسرا نام بن گیا تھا یہاں تک کہ رات میں لوگوں کے یہاں سارا دودھ پینے کے بعد بے رحم اور لالچی فوجی صبح ہونے پر دہی کا مطالبہ کرنے کیلئے لوٹتے تھے۔
سیزن کے تادیبی کارروائیوں کیلئے نا موافق ہونے کی وجہ سے نیپال کے راجا کے نام ایک اعتراضیہ خط بھیجا گیا جسکا جواب گستاخانہ آیا۔یکم نومبر 1814کو جنگ کا اعلان ہوا جسکے تحت ہونے والی کارروائیوں کا تذکرہ ’’ولیمز میموئر آف دون‘‘ میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔گورکھا ایک ظالم دشمن ثابت نہ ہوئے بلکہ کالینگا کہلانے والے نالاپانی پہاڑ پر عجلت سے تعمیر کردہ قلعہ میں لڑنے والے چند مٹھی بھر افراد یہ اتنے ہی سخت جاں اور بہادر تھے کہ جیسا کہ تاریخ میں ایسے کوئی بھی واقعات درج ہیں۔
وادیٔ دون میں رسپانا کے کنارے کھڑا دو چھوٹے ستون (اوبیلسکس) ایک منفرد یادگار ہیں جو فاتح اور مفتوح دونوں، کی یاد دلاتے ہیں۔یہ جنرل گلیسپائی اور انکے ساتھ مارے جانے والوں کی یاد دلاتے ہیں اور دوسرا بہادر بالبدر سنگھ اور دیگر بہادر گورکھوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تاہم ، 17 نومبر ، 1815 کو ضلع سہارنپور کو ضم کیا گیا تھا۔
1815 میں برطانوی جنرل اوکٹرلونی نے دریائے کالی کے اُس پار نیپالیوں کے بارہ سالہ قبضے کو ختم کرکے انہیں گڑھوال اور کمون سے بے دخل کردیا ۔ بارہ سال کی تاریخ کا وہ دور اتراکھنڈ میں اس کی غیر معمولی سفاکیت اور جبر کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جارہا ہے۔ نیپالی سِکم میں تیستا سے مشرق تک اور دریائے ستلج سے مغرب تک کی سبھی زمینوں پر قابض تھے۔ عام تصفیہ (جنرل سیٹلمنٹ) کے لئے بات چیت کے نتیجے میں ایک معاہدہ ہوا جس پر دسمبر 1815 میں بہار کے چمپارن کے ساگولی میں دستخط ہوئے اور اگلے سال 1816 میں یہ معاہدہ روبہ عمل آیا۔
بدلے میں نیپال نے مشرق اور مغرب کے ان سبھی علاقوں کو چھوڑ دیا ، جو اس نے فتح کئے ہوئے تھے،بشمولِ پورے تیرائی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نیپال میں سرحد قائم کی جس پر 2 دسمبر 1815کو دستخط ہوئے اور 4 مارچ 1816کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور راج گرو گجاراج اور نیپال سے چندرا شیکھر اپادیائے کے درمیاں اسکی توثیق ہوئی۔ اس معاہدے نے انگریزوں کے سامنے نیپال کے سرخم کرنے کی نمائندگی کی اور اس میں نیپال کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے مغربی علاقے کے چھوڑ دینا شامل تھا۔
سِکم ، تیرائی، کماون اور گڑھوال کا قبضہ انگریزوں کو بحال کردیا گیا جبکہ نیپال کو واپس اپنی اصل سرحدوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔اتراکھنڈ کے پٹوراگڈھ ضلع میں دریائے سردا یا جسے نیپالی مہاکالی کہتے ہیں دونوں ممالک کے درمیان سرحد کے بطور تسلیم کرلیا گیا تھا۔یقیناََ مشرق کی جانب دریائے میچی ، جو کشن گنج بہار کے میدانی علاقوں کی طرف بہتا ہے۔
موجودہ تنازعہ کی بنیاد، مانسروور یاترا کی مسافت مختصر کرنے کیلئے سرحدی سڑک تنظیم (بارڈر روڈس آرگنائزیشن) کی جانب سے لیپولیکھ دریے کے راستے بنائی گئی، ایک سڑک ہے۔دریائے مہاکالی کے ساتھ تین ندیاں ملتی ہیں یعنی اسکی تین ٹریبیوٹریز ہیں۔اتراکھنڈ کے پٹورا گڈھ ضلع میں لمپیادھورا،کالا پانی اور لیپولیکھا نامی تین ندیاں مہاکالی میں اترتی ہیں۔
نیپالیوں کا دعویٰ ہے کہ مغربی کنارے پر لیمپادھورا اسکی سرحد ہے،ہمارا ماننا ہے کہ لیپولیکھا سرحد ہے۔
یہ تنازعہ کسی حد تک چینیوں کے ذریعہ دہلی پر دباؤ ڈالنے کے بعد پیدا ہوا ہے ، جب انہوں نے ہمالیائی خطے میں بند ملک میں ایک بہت بڑا جھنجھٹ حاصل کرلیا ہے۔نیپال کو اس تنازعے پر اکسایا جارہا ہے، جب سے ہمالیائی پہاڑوں کے دائرے میں بند اس ملک میں چینی اثرورسوخ بڑھنے لگا ہے،وہ نیپال کی کمیونسٹ حکومت کی اس تنازعہ کے حوالے سے حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور یہ تنازعہ بڑھتا جارہا ہے۔
جب ہاتھیوں کی لڑائی ہوتی ہے،زمین ہلنے لگتی ہے اور گھاس پھوس مسلی جاتی ہے۔ اس کہاوت کی سچائی تب سمجھ میں آئی جب حالیہ اختلاف کی خبر آگئی اور ہمارے ہِل اسٹیشن پر کام کرنے والا ایک ایک نیپالی غائب ہوگئے تھے اور وہ اپنے گھر واپس چلے گئے تھے۔
گنیش سیلی پہاڑوں میں پلے بڑھے ہیں اور ان کا تعلق ان مخصوص لوگوں سے ہے کہ جن کے الفاظ خود ان کی تصاویر سے دکھائے جاتے ہیں۔وہ دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے بعض کا بیس زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ان کے کام کو دنیا بھر میں مقبولیت ملی ہوئی ہے۔