ایک ایسے وقت میں جب پوری دُنیا کوِڈ19 سے جوجھ رہی ہے، اس سے متعلق کئی اہم سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔ اِن میں سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور جیو پولٹیکل رجحانات پر اس وبا کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا اس مشترکہ دُشمن (وائرس) کے خلاف جاری لڑائی کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر باہمی اشتراک دیکھنے کو ملے گا؟ اور کیا اس وبا کے نتیجے میں ایک نیا اور بہتر عالمی نظام قائم ہوجائے گا؟ لیکن بدقسمتی سے اِن سوالات کے جواب میں کہنا پڑتا ہے کہ صورتحال میں بہتر تبدیلی رونما ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران جس طرح کے منفی جیو پولٹیکل رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں، اُن میں مزید شدت پیدا ہوگی۔ دُنیا میں نیشنلزم کے پھیلاؤ اور ملکوں کی جانب سے خود کو ترجیح دینے کی پالیسیوں کی وجہ سے ویسے بھی بین الاقوامی سطح پر اشتراک کی کمی دیکھنے کو مل رہی تھی۔ مختلف ممالک کے درمیان پہلے ہی سرحدیں بند تھیں اور اب انہیں مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے۔ جبکہ مستقبل قریب میں ان کے کھلنے کا زیادہ امکان بھی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مہاجر متاثر ہونگے، جو جنگ ذدہ خطوں اور پر تشدد حالات سے بھاگ کر یا پھر بہتر ذرائع معاش کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لیتے ہیں۔
طاقتور ممالک کی جانب سے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے کثیر الجہتی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے بھی پہلے ہی کمزور ہوگئے تھے۔ اب جو صورتحال پیدا ہورہی ہے، اس کے نتیجے میں یہ عالمی تنظیمیں اور ادارے اپنا اثرو رسوخ مزید کھو دیں گے۔ اس ضمن میں کئی اہم واقعات پہلے ہی رونما ہوچکے ہیں۔ جیسے کہ امریکہ نے عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے فنڈز روک دیئے۔ اس نے ’پیرس کلامیٹ ایگریمنٹ‘ سے بھی علاحدگی اختیار کرلی۔ اسی طرح روس بین الاقوامی کرمنل کورٹ سے الگ ہوگیا۔ چین نے سال 2016ء میں ہی جنوبی چین کے سمندری خطے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ٹربیونل کورٹ کے ایک فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ یہاں تک کہ اقتصادی لحاظ سے طاقتور ترین اتحاد یعنی یورپین یونین کے رُکن ممالک موجودہ حالات میں اٹلی کی مدد کرنے میں آنا کانی کرتے نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ کئی سال سے یہ بحث چل رہی ہے کہ لبرل ازم کے حوالے سے بین الاقوامی تعلقات میں باہمی اشتراک کمزور پڑرہا ہے۔ جمہوری نظام، بین الاقوامی ادارے اور معاشی آزادی چند ایسی چیزیں ہیں، جو ایک پر امن دُنیا کے لئےضروری ہیں۔ لیکن یہ چیزیں پہلے ہی کمزور پڑرہی ہیں۔ عالمی نظام میں انتشار دیکھنے کو مل رہا ہے جبکہ انتشار کے اس پھیلاو میں بڑے ممالک ہی اپنا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ کسی عالمی اتھارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مختلف ممالک اپنی طاقت میں غیر معمولی اضافہ کرتے نظر آرہے ہیں۔
آج جب ہم دُنیا پر نظر ڈالتے ہیں اور کووِڈ19 کے بعد کی دُنیا کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر طاقت آزامائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے ایران اور عراق جیسے ممالک کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونگے اور اس کے نتیجے میں اس خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ نتیجے کے طور پر شدت پسندانہ رجحانات اور دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب وہ ممالک ، جن کا ہیلتھ انفراسٹکچر کمزور ہے، وہ وائرس کے اثرات سے خود کو بچانے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔
دُنیا میں بڑی طاقتوں کی دُشمنیاں مزید گہری ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اس ضمن میں امریکہ اور چین کے درمیان الفاظ کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے وائرس کے بارے میں اطلاعات چھُپالی تھیں۔ ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر یہ ثابت ہوا کہ چین نے اس وبا کے پھیلاو میں جان بوجھ کر غلطی کی ہے تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ دوسری جانب چین نے وسیع پیمانے پر پروپگنڈا مہم شروع کردی ہے کہ اس نے وبا کو قابو کرلیا ہے۔ اب وہ یورپ، افریقہ اور ایشائی ممالک کو طبی خدمات بہم پہنچا کر خود کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
عام طور سے یہ کہا جارہا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات پر ہی اکیسویں صدی کے حالات کا انحصار ہوگا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے ان ممالک کے تعلقات بہت خراب ہوگئے ہیں۔ سنگاپور کے لی یو اسکول آف پبلک پالیسی کے ایک ایسوسیٹ پروفیسر جیمز کرابٹری نے سی این بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ سنہ 1970ء کے بعد پہلی بار امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات سب سے زیادہ بدترین نکتے پر پہنچ گئے ہیں۔
تاہم امریکہ اور چین کا ایک دوسرے کو ہدف بنانے کے اس عمل کے دوران دونوں میں سے کسی ایک کوئی بھی دُنیا میں اپنا تعاون فراہم کرتا نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکہ اس بحران میں ایک قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آیا۔ یہاں تک کہ خود امریکہ ملک میں اس وبا سے نمٹنے میں بھی ڈگمگاتا نظر آرہا ہے۔ اسی طرح چین دُنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے کہ وہ اس وبا سے نمٹنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ بلکہ ماہرین تو چین کی حکومت کی جانب سے کورنا وائرس کے متاثرین سے متعلق فراہم کردہ اعداد و شمار پر اپنے شکو ک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں ایک جانب بہت سارے ممالک معاشی لحاظ سے کمزور ہیں اور دوسری جانب عالمی سطح پر باہمی اشتراک نظر نہیں آتا ہے۔ ایسے حالات میں دُنیا کثیر الجہتی بن کر رہ جائے گی۔ بھارت جیسے ممالک جو اس وبا سے کامیابی کے ساتھ لڑتے نظر آرہے ہیں، اب کئی طرح کے مواقعوں سے استفادہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان مواقعوں میں ایک یہ ہے کہ یہ ممالک پیداواری صلاحیت اپنی بڑھا سکتے ہے۔ دُنیا کو اب چین پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے خطرات کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اس لئے اس بات کا امکان ہے کہ پیداواری کمپیاں چین سے کہیں اور منتقل ہوجانے کا فیصلہ کریں گی۔
جاپان نے پہلے ہی اپنے پیداواری شعبے کو فروغ دیے کے لئے اور چین سے باہر نکل آنے کےلئے 2.2 بلین ڈالر مختص کردیئے ہیں۔ کئی دیگر عالمی کمپنیاں بھی ایسا ہی کریں گی۔تاہم کمپنیوں کا چین سے فوری اخراج کا امکان نہیں ہے۔ یہ اطلاعات پہلے ہی منظر عام پر آچکی ہیں کہ لگ بھگ ایک ہزار کمپنیاں فی الوقت بھارت میں اپنے پیداواری یونٹس قائم کرنے کےلئے بھارتی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لانی ہوں گی اور کئی طرح کے اقدامات کرنے ہوں گے۔لیکن یہ طے ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر پیداواری یونٹس کی بھارت میں منتقلی ہوجاتی ہے تو یہ صورتحال بھارت کی معیشت کے لئے ایک گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔
ابھی تک دُنیا کا جیو پولٹیکل مستقبل واضح نہیں ہوا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں اس حوالے سے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ کئی چیز بن اور بگڑ رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے عالمی نظام میں تبدیلی رونما ہوگی۔ عالمی قوتوں کی ایک دوسرے سے طاقت آزمائی اس وبا کے حوالے سے بھی جاری ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس وبا کے اختتام پر دُنیا بدترین حالات سے دو چار ہوگی۔‘‘
مختلف با اثر حلقوں کی جانب سے یہ انتباہ جاری کیا گیا ہے کہ اس وبا کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انسانی المیے پیدا ہونگے۔ اس لئے ممالک کو اپنے اختلافات فراموش کرکے اس بحران کے خلاف مشترکہ طور لڑنا چاہیے۔ یہ ایک دانشمندانہ تجویز ہے لیکن حقیقت یہ کہ قوموں کی جانب سے اپنے دفاع اور طاقت کے حصول کی جدوجہد میں اخلاقیات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ہے۔