ETV Bharat / opinion

Jai Kisan بھارت میں ناقص زراعت قوانین اور غذائی سلامتی کےلئے مناسب اقدامات کا فقدان

کسان خیرات نہیں مانگ رہے ہیں۔ وہ صرف اپنی انتھک محنت کے لیے مناسب معاوضے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کی محنت کو نقصان پہنچانے والی مسلسل ناقص پالیسیوں کا اطلاق کسانوں کو صرف اپنا پیشہ ترک کرنے پر ہی مجبور کرے گا۔ کثیر الاشاعت تلگو اخبار ایناڈو کے اداریے میں اس اہم مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 20, 2023, 6:54 PM IST

ہندوستان کے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے جے جوان جے کسان کا شاندار نعرہ دے کر تشکر کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ایک طرف بیرونی خطرات سے ہماری قوم کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بہادر سپاہیوں کا شکریہ ادا کیا اور دوسری جانب بھوک کی آگ کو بجھا نے کیلئے پوری تندہی سے زمین کی نشوونما کرنے والے کسانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ شاستری کا نعرہ اس اہم کردار کو نمایاں کرتا ہے جو کسان ہمارے معاشرے میں ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف زمین کے کاشتکار نہیں ہیں۔ وہ ہماری خوراک کی حفاظت کے محافظ ہیں۔ عصر حاضر میں تاہم، زرعی شعبے کو ملنے والی توجہ اور امداد کی سطح کا مشاہدہ کیا جائے تو مایوسی ہوجاتی ہے۔ پالیسی سازوں کی دانشمندی اور باریک بینی اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پالیسی ساز یہ سمجھنے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ ایک مطمئن کسان ہی ایک خوشحال قوم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مرکزی کابینہ نے ایک حالیہ فیصلے میں 2024-25 ربیع کے مارکیٹنگ سیزن کے دوران چھ اہم فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت میں اضافہ کیا ہے۔ قابل ذکر اضافے میں گیہوں کے لیے اضافی 150 روپے فی کوئنٹل شامل ہیں۔ اہم فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمتوں پر نظر ثانی کی گئی ہے، جس میں جو کے لیے 115 روپے، چنے کے لیے 105 روپے، سورج مکھی کے لیے 150 روپے، سرسوں کے لیے 200 روپے اور تور دال کے لیے 425 روپے کا نمایاں اضافہ شامل ہے جسکا انحصار 15 فیصد درآمدات پرہے۔ لیکن اس سب کے باوجود پریشان کن صورتحال برقرار ہے۔ کم از کم امدادی قیمتوں کا نظام ایک مستقل طرز میں بندھا ہوا ہے۔ ایک 29 رکنی خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کا مقصد اس نظام کو مضبوط کرنا تھا لیکن اب تک یہ کمیٹی کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہے۔ اہم مسائل جیسے کہ کاشت کی حقیقی لاگت کو کم کرنا، الگ الگ ریاستوں مختلف اخراجات ہونا اور اس تفاوت کو پوشیدہ رکھنا، مہنگائی کو نظر انداز کرنا، اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کو نظر انداز کرنا، وغیرہ انکی جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ کمیشن برائے زرعی لاگت اور قیمتیں (سی اے سی پی) نے بیجوں اور مزدوری کی بڑھتی ہوئی لاگت کو نظر انداز کر دیا ہے، جو اس بات کا غماز ہے کہ کمیشن ایسے معاملات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ صرف جزوی مالی ریلیف فراہم کرنا اور مجموعی لاگت کے ڈھانچے کو سرے سے نظر انداز کرنا، ہماری کاشتکار برادری کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: First Namo Bharat Train نمو بھارت ٹرین مستقبل کے ہندوستان کی ایک جھلک، مودی

وائی کے الگھ کمیٹی نے اس سے قبل زراعت پر ملک کے بھاری انحصار کو تسلیم کرتے ہوئے، ہندوستان کے کم از کم امدادی قیمت کے نظام میں ایک جامع نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔ قیمت کے تعین کے طریقہ کار کو پروفیسر ابھیجیت سین کی کمیٹی نے ہدف تنقید بنایا۔ 2000 سے 2017 تک ہندوستانی کسانوں کی جانب سے منصفانہ زرعی قیمتوں کا حساب لگانے درکار نظام کی ناکامی کی وجہ سے ہونے والی حیران کن لاگت کا تخمینہ تقریباً 45 لاکھ کروڑ روپے لگایا گیا ۔ یہ بے پناہ نقصان اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کی درویشانہ نصیحت یہ تھی کہ اصل کاشتکاری کی لاگت میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے، اور ایک مناسب اور یکساں قیمت مختص کی جائے، ابھی تک قابل عمل نہیں سمجھی گئی ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ کوتاہیاں بدستور ہوررہی ہیں، خاص کر زمین کی قیمت، کرایہ اور کنبہ مزدوری کے پس منظر میں۔ نیتی آیوگ کا یہ کہنا کہ اس طرح کے عوامل کو قیمتوں کے تعین میں ملحوظ رکھنا ناقابل عمل ہے، اصل میں نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ مزید برآں، پارلیمانی قائمہ کمیٹی نے زرعی لاگت اور قیمتوں کے کمیشن (سی اے سی پی) کے خلاف یہ آواز بھی اٹھائی ہے کہ انہوں نے بوائی اور کٹائی کے دوران مزدوروں کی اجرت کو نظر انداز کیا ہے جبکہ کیڑوں اور چوہوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو بھی کسی کھاتے میں نہیں ڈالا ہے۔یہ ایسی تفاوتیں ہیں جنہیں فوری طور پر دور کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، تمام کسانوں بشمول کرایہ داروں کے لیے جامع انشورنس کوریج کو بڑھانا ضروری ہے۔ موجودہ منظر نامہ، جہاں صرف 14 خریف اور چھ ربیع کی فصلوں کے ساتھ دو تجارتی فصلوں (جوٹ اور ناریل) کے لیے امدادی قیمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے، ملک میں کاشت کی جانے والی ستر سے زیادہ فصلوں کے ضمن میں ناقابل برداشت ہے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار وسیع تر کوریج کا مشورہ دے سکتے ہیں، شانتھا کمار کمیٹی نے انکشاف کیا کہ دھان اور گیہوں کے صرف 6 فیصد کسانوں کو امدادی قیمت کے نظام سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ تفاوت زیادہ تر کسانوں کو مارکیٹ کی بے رحم قوتوں کا شکار بنا دیتا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ آیا ان کی کوششوں کا مناسب صلہ ملے گا، خاص طور پر جب دالوں کی کاشت کی بات آتی ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال قوم کو سالانہ درآمدات پر خاطر خواہ غیر ملکی کرنسی کا استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے، جس سے صارفین پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ پڑتا ہے۔ کسان خیرات نہیں مانگ رہے ہیں۔ وہ صرف اپنی انتھک محنت کے لیے مناسب معاوضے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کی کوششوں کو نقصان پہنچانے والی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ کسان اپنے آبائی پیشے کو خیر باد کہیں گے۔ایسے تاریک حالات میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے 140 کروڑ عوام کو کون کھلائے گا؟ ایک کسان کی پریشانی پوری قوم کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ یہ یاد رکھا جانا چاہئے کہ کسانوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنا ہمارے غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اس معاملے میں فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر یہ مسئلہ کافی پیچیدہ ہوجائے گا اور مجموعی طور پورے ملک کت تحفظ خوراک کی بنیادوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

ہندوستان کے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے جے جوان جے کسان کا شاندار نعرہ دے کر تشکر کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ایک طرف بیرونی خطرات سے ہماری قوم کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے بہادر سپاہیوں کا شکریہ ادا کیا اور دوسری جانب بھوک کی آگ کو بجھا نے کیلئے پوری تندہی سے زمین کی نشوونما کرنے والے کسانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ شاستری کا نعرہ اس اہم کردار کو نمایاں کرتا ہے جو کسان ہمارے معاشرے میں ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف زمین کے کاشتکار نہیں ہیں۔ وہ ہماری خوراک کی حفاظت کے محافظ ہیں۔ عصر حاضر میں تاہم، زرعی شعبے کو ملنے والی توجہ اور امداد کی سطح کا مشاہدہ کیا جائے تو مایوسی ہوجاتی ہے۔ پالیسی سازوں کی دانشمندی اور باریک بینی اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پالیسی ساز یہ سمجھنے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ ایک مطمئن کسان ہی ایک خوشحال قوم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مرکزی کابینہ نے ایک حالیہ فیصلے میں 2024-25 ربیع کے مارکیٹنگ سیزن کے دوران چھ اہم فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت میں اضافہ کیا ہے۔ قابل ذکر اضافے میں گیہوں کے لیے اضافی 150 روپے فی کوئنٹل شامل ہیں۔ اہم فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمتوں پر نظر ثانی کی گئی ہے، جس میں جو کے لیے 115 روپے، چنے کے لیے 105 روپے، سورج مکھی کے لیے 150 روپے، سرسوں کے لیے 200 روپے اور تور دال کے لیے 425 روپے کا نمایاں اضافہ شامل ہے جسکا انحصار 15 فیصد درآمدات پرہے۔ لیکن اس سب کے باوجود پریشان کن صورتحال برقرار ہے۔ کم از کم امدادی قیمتوں کا نظام ایک مستقل طرز میں بندھا ہوا ہے۔ ایک 29 رکنی خصوصی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کا مقصد اس نظام کو مضبوط کرنا تھا لیکن اب تک یہ کمیٹی کوئی خاطر خواہ تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہے۔ اہم مسائل جیسے کہ کاشت کی حقیقی لاگت کو کم کرنا، الگ الگ ریاستوں مختلف اخراجات ہونا اور اس تفاوت کو پوشیدہ رکھنا، مہنگائی کو نظر انداز کرنا، اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کو نظر انداز کرنا، وغیرہ انکی جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ کمیشن برائے زرعی لاگت اور قیمتیں (سی اے سی پی) نے بیجوں اور مزدوری کی بڑھتی ہوئی لاگت کو نظر انداز کر دیا ہے، جو اس بات کا غماز ہے کہ کمیشن ایسے معاملات کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ صرف جزوی مالی ریلیف فراہم کرنا اور مجموعی لاگت کے ڈھانچے کو سرے سے نظر انداز کرنا، ہماری کاشتکار برادری کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: First Namo Bharat Train نمو بھارت ٹرین مستقبل کے ہندوستان کی ایک جھلک، مودی

وائی کے الگھ کمیٹی نے اس سے قبل زراعت پر ملک کے بھاری انحصار کو تسلیم کرتے ہوئے، ہندوستان کے کم از کم امدادی قیمت کے نظام میں ایک جامع نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔ قیمت کے تعین کے طریقہ کار کو پروفیسر ابھیجیت سین کی کمیٹی نے ہدف تنقید بنایا۔ 2000 سے 2017 تک ہندوستانی کسانوں کی جانب سے منصفانہ زرعی قیمتوں کا حساب لگانے درکار نظام کی ناکامی کی وجہ سے ہونے والی حیران کن لاگت کا تخمینہ تقریباً 45 لاکھ کروڑ روپے لگایا گیا ۔ یہ بے پناہ نقصان اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کی درویشانہ نصیحت یہ تھی کہ اصل کاشتکاری کی لاگت میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے، اور ایک مناسب اور یکساں قیمت مختص کی جائے، ابھی تک قابل عمل نہیں سمجھی گئی ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ کوتاہیاں بدستور ہوررہی ہیں، خاص کر زمین کی قیمت، کرایہ اور کنبہ مزدوری کے پس منظر میں۔ نیتی آیوگ کا یہ کہنا کہ اس طرح کے عوامل کو قیمتوں کے تعین میں ملحوظ رکھنا ناقابل عمل ہے، اصل میں نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ مزید برآں، پارلیمانی قائمہ کمیٹی نے زرعی لاگت اور قیمتوں کے کمیشن (سی اے سی پی) کے خلاف یہ آواز بھی اٹھائی ہے کہ انہوں نے بوائی اور کٹائی کے دوران مزدوروں کی اجرت کو نظر انداز کیا ہے جبکہ کیڑوں اور چوہوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو بھی کسی کھاتے میں نہیں ڈالا ہے۔یہ ایسی تفاوتیں ہیں جنہیں فوری طور پر دور کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، تمام کسانوں بشمول کرایہ داروں کے لیے جامع انشورنس کوریج کو بڑھانا ضروری ہے۔ موجودہ منظر نامہ، جہاں صرف 14 خریف اور چھ ربیع کی فصلوں کے ساتھ دو تجارتی فصلوں (جوٹ اور ناریل) کے لیے امدادی قیمتوں کا اعلان کیا جاتا ہے، ملک میں کاشت کی جانے والی ستر سے زیادہ فصلوں کے ضمن میں ناقابل برداشت ہے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار وسیع تر کوریج کا مشورہ دے سکتے ہیں، شانتھا کمار کمیٹی نے انکشاف کیا کہ دھان اور گیہوں کے صرف 6 فیصد کسانوں کو امدادی قیمت کے نظام سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ تفاوت زیادہ تر کسانوں کو مارکیٹ کی بے رحم قوتوں کا شکار بنا دیتا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ آیا ان کی کوششوں کا مناسب صلہ ملے گا، خاص طور پر جب دالوں کی کاشت کی بات آتی ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال قوم کو سالانہ درآمدات پر خاطر خواہ غیر ملکی کرنسی کا استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے، جس سے صارفین پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ پڑتا ہے۔ کسان خیرات نہیں مانگ رہے ہیں۔ وہ صرف اپنی انتھک محنت کے لیے مناسب معاوضے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کی کوششوں کو نقصان پہنچانے والی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ کسان اپنے آبائی پیشے کو خیر باد کہیں گے۔ایسے تاریک حالات میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے 140 کروڑ عوام کو کون کھلائے گا؟ ایک کسان کی پریشانی پوری قوم کے لیے باعث شرمندگی ہے۔ یہ یاد رکھا جانا چاہئے کہ کسانوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنا ہمارے غذائی تحفظ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اس معاملے میں فوری طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر یہ مسئلہ کافی پیچیدہ ہوجائے گا اور مجموعی طور پورے ملک کت تحفظ خوراک کی بنیادوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.