پروفیسر ایم ٹیلر فراویل ایک سٹریٹجک ماہر ہیں۔ وہ میساچیوسٹس انسٹی چیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پولٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں اور اِس ادارے کے سیکورٹی سٹیڈیز پروگرام کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لداخ کی گلوان وادی پر چین کا دعویٰ کوئی نیا دعویٰ نہیں ہے بلکہ چین کے نقشوں میں ہمیشہ گلوان دریا کے دہانے تک کے علاقے کو چین کا حصہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ اِس وقت یعنی بھارت چین سرحدی کشیدگی کے دور میں بھی چین کا یہی موقف ہے۔ تاہم پروفیسر موصوف کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے چین اس علاقے میں زیادہ متحرک نظر نہیں آتا تھا۔ پروفیسر ایم ٹیلر فراویل نے اس موضوع پر سینئر صحافی سمیتا شرما کے ساتھ ایک بات چیت کی، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ شائد گلوان وادی میں بھارت چین کی افواج کی موجودگی کے حوالے سے صورتحال یعنی فوجیوں کی پہلے جیسی پوزیشن بحال نہیں ہوگی۔ امریکا کی جانب سے بھارت کے حق میں دیئے گئے بیانات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ امریکا دونوں ملکوں کے اس سرحدی تنازعے میں کس حد تک مداخلت کرئے گا کیونکہ اس کے نتیجے میں صورتحال مزید بگڑنے کا احتمال بھی ہے۔ نیز یہ فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا کہ وہ کس حد تک امریکا کے قریب جانا چاہتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پروفیسر فراویل چین کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کے ایک سکالر ہیں۔ وہ ’ایکٹیو ڈیفینس: چیناز ملٹری سٹریٹجی سنس 1949ء‘‘ نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ اس تنازعے میں روس کی جانب سے کردار نبھانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ روس نے ہمیشہ بڑی قوتوں کے درمیان تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کی روایت قائم رکھی ہے۔ فراویل کا کہنا ہے کہ چین نے اب اپنا لہجہ نرم کردیا ہے کیونکہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ پہلے ہی امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات میں کافی بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ بھارت کو پریشان کرنے کےلئے چین بھوٹان اور نیپال جیسے ممالک میں مزید سرحدی تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔
پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات:
سوال: بھارت اور چین لائن آف ایکچیول کنٹرول پر تنائو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پیٹرولنگ پوائنٹس 14,15اور 17 پر ڈس انگیجمنٹ کا عمل پورا ہوگیا ہے۔ اب پینگانگ جھیل کے قریب تنائو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ سیاسی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں۔ دونوں ممالک کے خصوصی نمائندوں نے بات چیت کی ہے۔ آپ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں اور آپ کی نظر میں چین کے اس حملے کی شدت کتنی تھی؟
اس کا جواب دینا آسان نہیں ہے کیونکہ ہماری اطلاعات کا ماخذ بھارتی نیوز رپورٹس ہیں یا پھر سرکاری ذرائع۔ بعض لوگ سیٹالائٹ تصویروں کو دیکھ کر بھی کچھ اندازے لگارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سب سے بڑی اُلجھن یہ ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول ایک غیر متعین سرحد کی طرح ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا چین نے بھارت میں دراندازی کی ہے یا پھر بھارت چین کی زمین میں گھس گیا ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ کم از کم تین مقامات گلوان وادی، ہاٹ سپرنگز اور پینگانگ جھیل میں چین آگے آیا ہے اور ان مقامات پر چین نے بھارتی نکتہ نظر کی لائن آف ایکچیول کنٹرول پھلانگ دی ہے۔ پینگانگ ایک وسیع جھیل ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ اس جھیل میں فنگر چار سے فنگر آٹھ تک متنازعہ ہے۔ بھارت کا ماننا ہے کہ لائن آف ایکچویل کنٹرول فنگر آٹھ پر ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ لائن آف ایکچویل کنٹرول فنگر چار پر ہے۔ گلوان وادی میں صورتحال کچھ زیادہ ہے اُلجھن بھری ہے۔ یہاں پر گلوان دریا کا وہ نکتہ تنازعے کا مرکز ہے، جہاں پر اس دریا کا پانی شیاک دریا سے جاملتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول اس نکتے سے جنوب مشرق کی جانب ایک کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ چین کا کہنا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول دریا کے اسی موڈ پر واقع ہے۔ بھارت کے نکتہ نظر سے چین نے ان علاقوں میں دراندازی کی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین خاموش ہے۔ یہاں تک کہ اس میڈیا بھی خاموش ہے۔ تاہم ہمارے پاس اچھی خاصی اطلاعات ہیں، جن کی بنا پر ہم جانتے ہیں کہ چین اُس مقام تک آگیا ہے، جسے وہ اپنے طور پر لائن آف ایکچیول کنٹرول سمجھتا ہے۔
سوال: چین کی جانب سے گلوان وادی پر اپنا حق جتلانے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس ضمن میں چین کی منسٹری آف نیچرل ریسورسز کے نیشنل پلیٹ فارم فار کامن جیو سپیٹل انفارمیشن سروسز کے ایک نقشے کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے۔ آپ اس معاملے کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
میرا خیال ہے کہ چین کے تازہ نقشے میں ایسا کوئی بدلائو نہیں آیا ہے۔ بلکہ چین ہمیشہ گلوان کے بیشتر حصے پر اپنا حق جتلاتا رہا ہے۔ کم و بیش کو گلوان دریا کے موڈ تک وہ اپنا حق جتلاتا رہا ہے۔ چین گلوان میں پانچ سے زائد کلو میٹر کے رقبے میں اُس مقام پر ہے، جہاں پر گلوان دریا مڑ کر دریائے شیوک کے ساتھ جاملتا ہے۔ گلوان وادی کے مختلف حصے، جو لگ بھگ چالیس کلو میٹر پر محیط ہیں۔ یہ علاقے فی الوقت تنائو کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہ تنازعہ عیاں طور پر 1962ء کی جنگ کے بعد پیدا ہوگیا ہے۔ چین کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود نقشے میں گلوان میں موجود پانچ کلو میٹر کی پٹی جو گلوان دریا کے موڈ تک ہے، چین کا حصہ دکھا یا گیا ہے۔ لیکن جب آپ چین یا بھارت کو گلوان وادی کی بات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس وادی کے حجم کے حوالے سے دونوں کے کیا نکتہ ہائے نظر ہیں۔ اس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہورہی ہے۔
سوال : کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ گلوان پر چین کا دعویٰ نیا نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس کا کوئی نیا ٹیکٹکل شفٹ ہے بلکہ یہ اس کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے؟
ایسا نہیں لگتا ہے کہ چین کے دعوے میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ چین مغرب کی جانب پانچ کلو میٹر کی دوری پر واقع شیوک دریا کے قریب آگیا ہے۔ چین دریا کے موڑ پر ٹھہر گیا ہے۔ اس علاقے میں چین کی موجودگی ایک علاحدہ سوال ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ چین کتنی بار اس علاقے تک آتا رہا ہے، جسے وہ اپنا سمجھتا ہے۔ بعض بھارتی رپورٹس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس مقام پر چین کی موجودگی بالکل نہیں ہے اور پریشان کن ہے۔ اس لئے اس دعوے کو سمجھنے کےلئے نقشے کو دیکھنا ہوگا اور ساتھ ہی یہ دیکھنا ہوگا کہ اس علاقے میں کون کتنا متحرک رہا ہے۔ چین کے بیانات کو دیکھ کر اور دوسری کئی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ چین کی نظر میں گلوان وادی دریا کے موڈ پر ختم ہوجاتی ہے، اس کے آگے کا علاقہ اس کی نظر میں گلوان کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن دوسری جانب چین کے باقی بیانات کچھ مختلف تاثر دیتے ہیں۔بالخصوص اس کا وہ بیان جو اس نے چھ جون کو دیا تھا اور جس میں اس نے کہا تھا کہ دونوں اطراف نے اتفاق کرلیا ہے کہ وہ دریا کے دہانے کے اپنی اپنی طرف آوٹ پوسٹ قائم کریں گے۔
سوال: گلوان میں رونما ہوئے پر تشدد واقعہ کے حوالے سے وزیر اعظم کے بیان، جو انہوں نے آل پارٹی میٹنگ میں دیا تھا، کو چین نے اپنے حق میں ایک گواہی کے بطور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس بیان نے بھارت کو نقصان پہنچا یا ہے یا کم از کم ایک طرح کا کنفوژن پیدا کردیا ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے اس بیان کی وجہ سے کنفوژن پیدا ہوگیا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ ہم اچھی طرح نہیں جانتے ہیں کہ لائن آف ایکچول کنٹرول حقیقت میں کہاں پر ہے۔ جب آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کیا واقعہ خلاف ورزی ہوئی ہے، تو آپ کو پہلے پتہ ہونا چاہیے کہ لائن اصل میں کہاں پر واقع ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر قابل ذکر ہے کہ چین کبھی بھی دریا کے موڈ سے آگے نہیں بڑھ گیا ہے۔ وزیر اعظم کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے چین کے سفیروں کے ہاتھ ایک اہم بات لگ گئی۔ سی سی ٹی این پر ایک شو میں وزیر اعظم مودی کے بیان کو سامنے لایا گیا، جس میں وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھارت کی زمین میں گھس نہیں آیا ہے۔ یعنی چین نے وزیر اعظم مودی کے بیان کو ہی اپنے حق میں استعمال کیا۔
سوال: بفر زون کے بارے میں بھی کنفوژن ہے ۔ کیا اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور کیا اس کی وجہ سے بھارت اپنی زمین سے محروم ہوگیا ہے؟
نیوز رپورٹس کو دیکھ کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں نے دیڑھ کلو میٹر پیچھے چلنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ دونوں نے کس مقام سے پیچھے ہٹنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ کیا گلوان وادی میں دونوں نے اس جگہ سے پیچھے ہٹنے پر اتفاق کیا ہے، جسے بھارت لائن آف ایکچیول کنٹرول سمجھتا ہے یا پھر اُس مقام سے، جسے چین لائن آف ایکچول کنٹرول سمجھتا ہے۔ بھارت یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ لائن آف ایکچیول کنٹرول سے مزید پیچھے ہٹ رہا ہے۔ بہر حال بفر زون قائم کرنا ایک اچھی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے ڈِس انگیجمنٹ کے منصوبے اس وجہ سے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے کیونکہ دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے بہت قریب آچکی تھیں۔ اس بات پر کنفوژن تھا کہ کس کو کہاں پر ہونا چاہیے۔ صورتحال کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ لیکن اب دونوں کو تین کلو میٹر کی پٹی پر پیٹرولنگ نہ کرنے دینے کے فیصلے سے یہ اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ زمینی سطح پر کچھ راحت پیدا ہوگئی ہے۔ اب باقی معاملات کو سفارتی اور سیاسی سطح پر حل کیا جاسکتا ہے۔
سوال: دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں نے بات چیت کی۔ بھارت نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے جیسی صورتحال پیدا ہوجانی چاہیے، یعنی جو جہاں پر تھا، اسے اسی مقام پر واپس جانا چاہیے۔ لیکن چین نے اپنے علاقے کا تحفظ کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور گلوان پر ہوئے پر تشدد واقعہ کی ذمہ داری بھی بھارتی سپاہیوں پر عائد کردی۔ سابق قومی سلامتی مشیر ایس ایس مینن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کی طرف سے جاری کئے گیے بیانات میں پہلے جیسی صورتحال قائم کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ کیا یہ بات پریشان کن ہے؟ اور کیا اپریل جیسی صورتحال بحال کرنے میں بہت وقت لگے گا؟
یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا پہلے جیسی صورتحال بحال ہوگی یا نہیں اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ پہلے کیا صورتحال تھی، یعنی پہلے دونوں ملکوں کی فوجیں کہاں پر تھیں۔ پینگانگ جھیل میں تو یہ بات واضح ہے کہ چین نے فنگر چار تک کے علاقے کو مکمل طور اپنی تحویل میں لیا ہوا ہے۔ اس نے اس مقام پر انفراسٹکچر بھی کھڑا کردیا ہے۔ اس لئے پینگانگ جھیل میں پہلے جیسی صورتحال قائم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ چین اس انفراسٹکچر کو منہدم کرے۔ جہاں تک گلوان کا تعلق ہے، یہاں پہلے جیسی صورتحال قائم کرنے کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ چین لائن آف ایکچیول کنٹرول کی کوجودگی اس مقام پر تسلیم کرے، جسے بھارت اصل میں لائن آف ایکچیول کنٹرول سمجھتا ہے۔ جہاں تک پہلے جیسی صورتحال کو بحال کرنے کی بات ہے، یہ تبھی ممکن ہے جب دونوں ملک اس پر راضی ہوں۔ دونوں ملکوں کے بیانات میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ تنائو ختم کرنے کی سمت میں ایک چھوٹا کا اقدام کیا گیا ہے تاکہ حالات قابو سے باہر نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لئے کسی مطالبے پر زور نہیں دیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک چین کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کا تعلق ہے، اس میں صورتحال کے حوالے سے صیح اور غلط کی نشاندہی کی گئی ہے اور چین نے اس بیان میں اپنے دعوے کو دہرایا ہے۔ اس کے علاوہ اس بیان میں چین نے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر زور دیا ہے۔ چین نے دونوں ملکوں کا مشترکہ طور ترقی کے لئے کام کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ یہ تو بہرحال اچھی باتیں ہیں۔ اس بیان میں یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ چین صورتحال کو مزید بگاڑنا نہیں چاہتا ہے۔ در اصل چین ایک ایسے وقت میں زیادہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا ہے، جب امریکا کے ساتھ پہلے ہی اس کے تعلقات خراب ہیں۔
سوال: امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پیمپو نے کہا ہے کہ انہوں نے کئی بار بھارتی وزیر خارجہ سے بات چیت کی ہے۔ امریکی بیانات سے چین امریکا تعلقات کی ابتری کا عندیہ بھی ملتا ہے۔ لیکن اگر بھارت اور چین کے درمیان تناو بڑھ جائے گا تو امریکا عملی طور پر کس حد تک اس تنازعے میں مداخلت کرے گا ؟
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے پچھلے چھ ماہ کے دوران کئی بار چین کے خلاف بیانات وغیرہ دیئے ہیں۔ یہ بیانات چین کے ساتھ امریکا کی سٹریٹجیک مقابلہ آرائی کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ اس لئے اُنہوں نے جو کچھ بھی بھارت کے بارے میں کہا ہے، وہ حیران کن نہیں ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان بیانات کی وجہ سے بھارت کے تئیں امریکی برتاو میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور یہ کہ بھارت چین تناو بڑھنے کی صورت میں کیا امریکا چین کے مقابلے میں بھارت کو اپنی حمائت دے گا؟ مجھے نہیں لگتا ہے کہ ایسا کچھ ہوگا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی جانب سے بھارت یا کسی دوسرے ملک کے خلاف چین کی جارحیت کے حوالے سے اس طرح کے بیانات دینا ایک عام بات ہے۔ امریکی مداخلت کس حد تک ہوسکتی ہے، اس کا دار مدار کئی باتوں پر ہے۔ پہلی بات یہ دیکھنا ہوگا کہ سرحد پر دونوں ملکوں کا تناو کس حد تک بڑھ جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کیا بھارت واقعی امریکی مداخلت چاہتا ہے۔ خاص طور سے ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے سے یہ سمجھتا جاتا ہے کہ چین کے ساتھ اسکے تعلقات خراب ہیں لیکن یہ کبھی بھی بہت جلد خراب تر نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے بھارت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ امریکا اور چین کے اس ٹکراو میں شامل ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔ بھارت ایسا تب ہی کرے گا جب امریکا اسے کوئی بہت بڑی مدد کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں ہے کہ بھارت کے لئے کیا ٹھیک رہے گا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ بھارت کے لئے امریکا کے قریب جانے اور دوطرفہ تعلقات مضبوط کرنے کا یہ ایک اچھا موقعہ ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ چین کو دونوں ممالک کا چیلنج درپیش ہے۔ اگر موجود تناو میں اضافہ نہیں بھی ہوگا تب بھی بھارت اور امریکا کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے دروازے کھل گئے ہیں۔
سوال: وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ’وکٹری ڈے پریڈ‘ میں شرکت کرنے کےلئے ماسکو گئے۔ بھارت نے روس کو نئے اسلحہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن روس کے چین کے ساتھ اپنی سطح پر تعلقات ہیں۔ آپ کی نظر میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے میں روس کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟ کیا بھارت کی جانب سے ایس 400 خریدنے پر ابھی بھی امریکا کی پابندی برقرار ہے؟
فوجی نکتہ نگاہ سے روس بھارت کا ایک اہم پارٹنر ہے کیونکہ وہ اسے جدید اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ خواہ ائر ڈیفینس سسٹم ہو، فائٹر ائر کرافٹس ہوں یا دوسری چیزیں ہوں۔ یہ سب روس بھارت کو فراہم کررہا ہے۔ امریکا بھارت کو دوسرے شعبوں میں چیزیں فراہم کررہا ہے۔ لیکن روس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور چین کے تنازعے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا ہے۔ روس دونوں بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ روس بھارت کو مسلسل اسلحہ فراہم کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس وجہ سے اسکی اسلحہ صنعت کو مدد مل رہی ہے لیکن ساتھ ہی چین کے ساتھ بھی اس کے مضبوط تعلقات ہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے اسے امریکا سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ روس چین کے مقابلے کی بھارت کی مدد کرنے کا رسک لے سکتا ہے۔ 1962ء کی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ روس نے اس میں مداخلت نہیں کی۔ روس کو دو بڑی قوتوں کے درمیان تنازعے میں الجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسی لئے روس نے درمیانی پوزیشن اختیار کی ہوئی ہے۔
کیا بھارت کی جانب سے روس سے مزید ہتھیار خریدنے کے معاملے پر امریکا میں ناراضگی پیدا ہوئی ہوگی؟
مجھے نہیں لگتا ہے کہ امریکا میں کوئی چاہتا ہوگا کہ بھارت روس کے ساتھ ہتھیار خریدنے کے تعلقات ختم کرے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کے لئے تعلق نبھانا ایک الجھن بھرا مسئلہ ہے۔ روس اور امریکا کے تعلقات بگڑنے کی صورت میں امریکا چاہے گا کہ بھارت بھی روس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں کمی لائے۔ بہر حال بھارت اور امریکا کے تعلقات فی الوقت اُن شعبوں میں بڑھ سکتے ہیں، جن کا روس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔ خواہ یہ ٹرانسپورٹ ائرکرافٹ سسٹم ہو، انٹیلی جنس کو شیئر کرنا ہو یا سیکورٹی ریلیشن شپ ہو۔ امریکا بھارت تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ لیکن اگر بھارت کو اپنا ائر ڈیفینس سسٹم مضبوط کرنا ہو تو وہ فوراً روس کی جانب مڑ جائے گا۔ امریکا کے پاس فروخت کرنے کےلئے ائر ڈیفینس سسٹم ہے بھی نہیں۔ کیونکہ امریکا کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ جغرافیائی لحاظ سے وہ ایک ایسی جگہ پر ہے ، جہاں اسے کوئی فضائی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس کے دو اطراف میں سمندر ہے اور شمال اور جنوب میں مقابلتاً چھوٹے ممالک واقع ہیں۔ اس لئے بھارت کو روس سے اسلحہ خریدنے کی اجازت دیکر امریکا در اصل چین کے خلاف ایک بھارت کو ایک مزاحمتی ملک کی حیثیت سے قائم ہوجانے میں اسکی مدد کرسکتا ہے۔
سوال: سیٹالائٹ تصاویر میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر فوجی جماو دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوسری جانب چین بھارت کے پڑوسی ممالک میں نت نئے سرحدی تنازعے کھڑے کررہا ہے۔ مثال کے طور پر اب وہ بھوٹان کے مشرقی علاقے میں واقع سیٹکانگ سینکچری پر اپنا دعویٰ جتلا رہا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ چین آنے والے دنوں میں بھارت کے خلاف نئے محاذ کھول سکتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ چین دراصل بھارت اور بھوٹان کے درمیان تناو بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن اصل میں چین کا مسئلہ اس وقت بھارت نہیں بلکہ امریکا ہے۔ چین اہداف کے حصول کا دار مدار اس بات پر ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کی کیا نوعیت رہتی ہے۔ تاریخی طور پر چین نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی ہے لیکن اس کے لئے یہ تعلقات اتنے بھی اہم نہیں ہیں جتنے امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات کی اہمیت ہے۔ چین مغربی سرحد پر بھارت کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ کیونکہ وہ تبت اور زنگ جنگ کے درمیان سڑک کے قریب بھارت کو مضبوط پوزیشن میں نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ سڑک تبت کو چین کے باقی علاقوں سے جوڑتا ہے۔ لیکن چین اپنے زیادہ وسائل اس معاملے میں خرچ نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ اصل میں اس کی توجہ امریکا کی جانب ہے۔چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اپنی طویل تقریر میں واضح کردیا ہے کہ چین کی سفارتی اور سٹریٹجک توجہ کہاں پر مرکوز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین مختلف علاقوں جیسے کہ بھوٹان اور نیپال کے ذریعے بھارت کو پریشان کرکے سرحدوں پر اپنی پوزیشن مضبوط کرے گا تاکہ اس کے بعد وہ اپنی پوری توجہ امریکا پر مرکوز کرسکے۔