فیاض احمد وانی:تنتالیس دنوں تک جاری رہنے والی سالانہ امرناتھ یاترا 11 اگست یعنی رکشا بندھن کے موقع پر اختتام پزیر ہوئی۔ باضابطہ اختتام سے کئی روز پہلے ہی یاتریوں کی آمد بند ہوگئی تھی چنانچہ جموں میں حکام نے استقبالیہ کونٹر ہی بند کردیے تھے۔ لیفٹننٹ گورنر نے یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ گُپھا میں موجود شیولنگم بھی پکھل رہا ہے اور یاترا کے آخری دنوں میں اس کی ہیئت کافی متاثر ہوگئی ہے۔Amarnath Yatra 2022 Concluded Peacefully
اس بار امرناتھ یاترا کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ نے حد درجہ انتظامات کیے تھے اور یہ باور کرنے کی کوشش کی تھی کہ شاید یہ یاترا تاریخ میں پہلی بار منعقد ہورہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ امرناتھ یاترا صرف کووڈ وبا کی وجہ سے متاثر نہیں ہوئی تھی بلکہ 2019 میں جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں بانٹا، اس کی نیم خودمختارانہ حیثیت کو دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی سے ختم کیا، اس وقت بھی امرناتھ یاترا کو قبل از وقت منسوخ کیا گیا تھا۔ اس وقت انتظامیہ نے یہ دلیل دی تھی کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں کے خدشات کے پیش نظر یاترا منسوخ کی گئی اور سبھی یاتریوں کو محفوط بسوں میں سوار کرکے کشمیر سے باہر نکالا گیا، لیکن چند ایام کے بعد پتہ چلا کہ اصل معاملہ دوسرا تھا۔Amarnath Yatra 2022
اس بار یاترا کا انعقاد ایک فوجی مشق سے کم نہیں تھا لیکن سب سے بدقسمت پہلو یہ رہا کہ موسم کے اچانک تغیر وتبدل سے ایک بڑا حادثہ ہوا جس میں اٹھارہ یاتریوں کی جان چلی گئی۔ اس حادثے نے انتظامیہ کےدعوؤں کی قلعی کھول دی۔ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اس حادثے کے لیے انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس جگہ پر یاتری موت کا نوالہ بن گئے وہاں ماضی میں یاتریوں کو ڈیرہ ڈالنے کی قطعی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ فاروق عبداللہ کے دور اقتدار میں امرناتھ شرائن بورڈ قائم کیا گیا اور انہوں نے ہی اسے خودمختار درجہ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ Security situations for Amarnath yatra 2022
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکام کے تجزیوں کے برعکس اس بار امرناتھ یاترا کے لیے کم تعداد میں لوگ کیوں آئے۔ امرناتھ یاترا شروع ہونے سے قبل اپریل میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات و نشریات اپووا چند نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ امسال امرناتھ یاترا کے لیے 8 لاکھ یاتریوں کا کشمیر وارد ہونا متوقع ہیں۔ اس فیصلے کے بعد جموں و کشمیر انتظامیہ اور مرکزی حکومت نے سالانہ یاترا کی تیاریوں اور انتظامات کے لیے کئی ساری میٹنگز کا انعقاد کیا ، تاکہ یاترا کو خوش اسلوبی سے منعقد کیا جائے۔
وہیں دوسری جانب اس اعلان سے یاترا سے جڑے افراد کے چہروں پر اطمینان کی مسکراہٹ آئی تھی۔ اصل میں یاتریوں کی آمد سے متعلق سرکاری دعوے، کشمیر کی زمینی صورتحال کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ کشمیر میں مئی اور جون کے مہینے میں ٹارگیٹ کلنگ کے کئی واقعات رونما ہوئے تھے اور اس پس منظر میں سکیورٹی فورسز نے امرناتھ یاترا کے قافلوں پر عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس سلسلے میں دہلی میں سکیورٹی فروسز کے سینیئر افسران اور جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا سے کئی منٹنگز منعقد کیں۔ میٹنگز میں سالانہ امرناتھ یاترا کے لیے خاطر خواہ سکیورٹی انتظامات اور ٹارگیٹ کلنگ کے واقعات کو انجام دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کے فیصلے لیے گئے تھے۔Amit Shah Meeting On Amarnath Yatra
لیکن آئے روز کشمیر کے طول و ارض میں ہونے والے پُرتشدد واقعات اور غیر مقامی باشندوں جن میں ایک مخصوص مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کے واقعات نے امرناتھ یاترا پر اپنا اثر قائم کیا۔ گوکہ حکام نے یاترا کی حفاظت کیے لیے کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن جو کثیر جہتی سکیورٹی بندوبست سے جو ماحول قائم ہوا، وہ یاترا جیسی مذہبی سرگرمی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوسکتا۔ وزارت داخلہ نے اس بار یاترا کے لیے پانچ درجاتی حفاظتی انتظامات کیے تھے۔ یاترا کے لیے مرکزی حکومت نے 300 اضافی کمپنیاں تعینات کی تھیں، جس میں ایس ایس بی، آئی ٹی بی پی، سی آر پی ایف کے اہلکار شامل تھے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار بھی یاترا ڈیوٹی پر مامور تھے۔ ایک کمپنی تقربیا 100 سے 150 افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔یاترا کی سکیورٹی کے لیے پہلی بار مائیکرو چیپس کے ساتھ کلائی والے بینڈ فراہم کیے گئے۔ اس کے علاوہ یاترا گاڑیوں کے لیے آر آئی ایف ڈی چیپس لگائے گئے۔ ان چیپس کی مدد سے یاتریوں اور ان کی گاڑیوں کی نقل وحمل سکیورٹی فورسز کے قیام کردہ کنٹرول روم کی نگرانی میں چوبیسوں گھنٹوں تک رہی۔ یاترا میں شامل گاڑیوں کی آمدو رفت کے وقت مقامی لوگوں کی نقل و حرکت پر قدغنوں سے بھی خوشگوار تاثر قائم نہیں رہ سکا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بار انتظامیہ کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے پہلی بار امرناتھ یاترا منعقد ہو رہی ہو۔Amarnath Yatra RFID chips
بہر کیف اس سال تقریباً 3 لاکھ 65 ہزار عقیدتمندوں نے شیولنگم کے درشن کیے۔ اگر ہم پچھلے ایک دو سالوں کا موازنہ کریں تو سنہ 2019 میں صرف 32 دنوں تک جاری رہنے والی یاترا میں 3 لاکھ 42 ہزار 83 عقیدت مندوں نے گُپھا کے درشن کیے تھے جبکہ سنہ 2018 میں 2 لاکھ 85 ہزار 6 افراد اور 2017 میں 2 لاکھ 60 ہزار 3 افراد نے گُپھا کے درش کیے تھے۔ اب اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امسال یاترا کی تعداد اتنی زیادہ نہ رہی جتنا تخمینہ جات میں کہا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:
امرناتھ یاترا ایک مذہبی عمل ہے، جسے سیاست سے دور رکھا جائے تو یہ اعتماد سازی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یاترا کا انعقاد کسی کو اونچا یا نیچا دکھانے کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے خالص مذہبی عقیدے کے سانچے میں ڈھال کر اس کی تاریخ اور روایات کے عین مطابق انجام دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی امتیازی یاترا ہے جس میں مہمان ایک مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے میزبان دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مسلم گھوڑے بان جب مہاراشٹر کی کسی زائرین کو امرناتھ گُپھا تک پہنچاتا ہے تو دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے تئیں محبت اور ہمدردی کےجذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یاتریوں کو یہ بات بار بار بتانے کی ضرورت ہے کہ جس گُپھا میں جاکر وہ درشن کرتے ہیں اس کی دریافت ایک مسلمان نے کی ہے اور کئی دہائیوں تک بوٹا ملک نامی اس شخص کا خاندان اس یاترا کی نگرانی کرتا تھا۔
یاترا کے بہتر انعقاد کے لیے امن و امان کی ضرورت ہے۔ یہ امن و امان تب قائم ہوگا جب کشمیر کے مقامی لوگوں کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کی اجازت دی جائے گی۔ اس امن و امان کی راہ میں جو بھی روڑے ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ اگلے سال کی امرناتھ یاترا ایک خوشگوار ماحول میں منعقد ہو۔