ETV Bharat / international

UK Forces Killed Dozens Afghan Detainees: افغانستان میں برطانوی فوج کے ہاتھوں درجنوں شہریوں کے قتل کا انکشاف - افغانستان میں برطانوی افواج کا طرز عمل

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی 4 سال تک جاری رہنے والی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ طویل جنگ کے دوران رات گئے چھاپوں میں برطانیہ کی اسپیشل ایئر سروس UK special forces کے فوجیوں کی جانب سے غیر مسلح افغان مردوں کو روزانہ گولی مار کر ہلاک کیا جاتا تھا اور ان کی لاشوں پر ہتھیار رکھ دیے جاتے تھے تاکہ جرائم کا جواز پیش کیا جاسکے۔UK Forces Killed Dozens Afghan Detainees

BBC investigation finds that UK special forces killed dozens Afghan detainees
افغانستان میں برطانوی فوج کے ہاتھوں درجنوں شہریوں کے قتل کا انکشاف
author img

By

Published : Jul 13, 2022, 9:36 PM IST

لندن: برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ کی اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کور کے کمانڈوز نے افغانستان میں دوران قیام 54 افغان شہریوں Afghan Civilians کو مشکوک حالات میں قتل کیا، لیکن اعلیٰ فوجی حکام نے اس سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے چھپایا۔ پاکستان کے اخبار ڈان میں شائع خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق 4 سال تک جاری رہنے والی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ طویل جنگ کے دوران رات گئے چھاپوں میں ایس اے ایس کے فوجیوں کی جانب سے غیر مسلح افغان مردوں کو آئے روز گولی مار کر ہلاک کیا جاتا تھا اور ان کی لاشوں پر ہتھیار رکھ دیے جاتے تھے تاکہ جرائم کا جواز پیش کیا جاسکے۔UK Forces Killed Dozens Afghan Detainees

رپورٹ میں کہا گیا کہ اُس وقت یو کے اسپیشل فورسز UK special forces کے سربراہ جنرل مارک کارلٹن اسمتھ سمیت سینئر افسران ایس اے ایس کے اندر کارروائیوں کے بارے میں خدشات سے آگاہ تھے، لیکن ملٹری پولیس کو آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔ بی بی سی نے کہا کہ برطانیہ کے قانون کے مطابق کسی کمانڈنگ افسر کے لیے فوجی پولیس کو ممکنہ جنگی جرائم کے بارے میں مطلع نہ کرنا ایک قابل سزا جرم ہے۔ گزشتہ ماہ برطانوی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے کارلٹن اسمتھ نے 'بی بی سی' کے پروگرام 'پینوراما' پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی تحقیقات عدالتی دستاویزات، لیک ہونے والی ای میلز اور افغانستان میں اس کے اپنے صحافیوں کے آپریشن کی جگہوں کے سفر پر مبنی ہیں۔

وزارت دفاع نے کہا کہ افغانستان میں برطانوی افواج کے طرز عمل سے متعلق پیشگی تحقیقات میں الزامات عائد کرنے کے لیے شواہد ناکافی ہیں۔ وزارت دفاع نے بی بی سی کو ایک بیان میں کہا کہ ’کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن سروس پولیس نئے شواہد سامنے آنے پر کسی بھی الزامات پر غور کرے گی‘۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی مسلح افواج نے افغانستان میں جرأت اور پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ خدمات انجام دیں اور ہم انہیں ہمیشہ اعلیٰ ترین معیار پر فائز رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

امریکی حملوں میں 39 افغان شہری ہلاک: اقوام متحدہ

Afghanistan: افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ جنگ کا اختتام

منگل کو مکمل طور پر نشر ہونے والی پینوراما تحقیقات نے نومبر 2010 سے مئی 2011 تک صوبہ ہلمند کے 6 ماہ کے دورے کے دوران ایک ایس اے ایس یونٹ کے ذریعے مشتبہ حالات میں گولی مار کر ہلاک کیے گئے 54 افراد کی نشاندہی کی۔ کارروائی کے بعد کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر افسران یونٹ کی جانب سے ہونے والی ہلاکتوں کی بلند شرح پر حیران ہیں کیونکہ ایس اے ایس فوجیوں میں سے کسی نے بھی طالبان کے ساتھ فائرنگ کے دوران زخمی ہونے کی اطلاع نہیں دی۔

خصوصی فورسز کے ہیڈکوارٹرز کے ایک سینئر افسر نے پینوراما کو بتایا کہ 'رات گئے چھاپوں میں بہت سارے لوگ مارے جارہے تھے اور وضاحتیں بے معنی تھیں، کسی کو حراست میں لے لیا جائے تو اسے ہلاک نہیں کیا جانا چاہیے، ایسا بار بار ہونا ہیڈکوارٹرز میں خطرے کی گھنٹی کا باعث بن رہا تھا، اس وقت یہ واضح تھا کہ کچھ غلط ہے'۔ اس بات پر خاص تشویش پائی جاتی تھی کہ چھاپوں کے بعد افغان رہائشی کمپاؤنڈز میں جائے وقوع پر ایس اے ایس کی گولیوں کے سوراخ پائے گئے جو سب نیچے کی جانب تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ افراد گھٹنے ٹیک رہے تھے یا زمین پر جھک رہے تھے۔

بی بی سی نے کہا کہ کئی انتباہات کو چین آف کمانڈ سے منسلک کیا گیا تھا لیکن ایس اے ایس اسکواڈرن کو اپنا 6 ماہ کا دورہ ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اسے 2012 میں دوسرے دورے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ 2014 میں رائل ملٹری پولیس نے افغانستان میں برطانوی افواج کے 600 سے زائد مبینہ جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا، جس میں ایس اے ایس اسکواڈرن کے ہاتھوں متعدد ہلاکتیں بھی شامل تھیں لیکن آر ایم پی کے تفتیش کاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں برطانوی فوج نے روک دیا اور تحقیقات 2019 میں ختم ہوگئیں۔ 2011 میں افغانستان میں رائل میرینز کے کمانڈر رہنے والے کرنل اولیور لی نے بتایا کہ یہ الزامات ناقابل یقین حد تک چونکا دینے والے ہیں اور ان کی مکمل عوامی انکوائری کی ضرورت ہے۔ (یو این آئی)

لندن: برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ کی اسپیشل ایئر سروس (ایس اے ایس) کور کے کمانڈوز نے افغانستان میں دوران قیام 54 افغان شہریوں Afghan Civilians کو مشکوک حالات میں قتل کیا، لیکن اعلیٰ فوجی حکام نے اس سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے چھپایا۔ پاکستان کے اخبار ڈان میں شائع خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق 4 سال تک جاری رہنے والی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ طویل جنگ کے دوران رات گئے چھاپوں میں ایس اے ایس کے فوجیوں کی جانب سے غیر مسلح افغان مردوں کو آئے روز گولی مار کر ہلاک کیا جاتا تھا اور ان کی لاشوں پر ہتھیار رکھ دیے جاتے تھے تاکہ جرائم کا جواز پیش کیا جاسکے۔UK Forces Killed Dozens Afghan Detainees

رپورٹ میں کہا گیا کہ اُس وقت یو کے اسپیشل فورسز UK special forces کے سربراہ جنرل مارک کارلٹن اسمتھ سمیت سینئر افسران ایس اے ایس کے اندر کارروائیوں کے بارے میں خدشات سے آگاہ تھے، لیکن ملٹری پولیس کو آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔ بی بی سی نے کہا کہ برطانیہ کے قانون کے مطابق کسی کمانڈنگ افسر کے لیے فوجی پولیس کو ممکنہ جنگی جرائم کے بارے میں مطلع نہ کرنا ایک قابل سزا جرم ہے۔ گزشتہ ماہ برطانوی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے کارلٹن اسمتھ نے 'بی بی سی' کے پروگرام 'پینوراما' پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کی تحقیقات عدالتی دستاویزات، لیک ہونے والی ای میلز اور افغانستان میں اس کے اپنے صحافیوں کے آپریشن کی جگہوں کے سفر پر مبنی ہیں۔

وزارت دفاع نے کہا کہ افغانستان میں برطانوی افواج کے طرز عمل سے متعلق پیشگی تحقیقات میں الزامات عائد کرنے کے لیے شواہد ناکافی ہیں۔ وزارت دفاع نے بی بی سی کو ایک بیان میں کہا کہ ’کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن سروس پولیس نئے شواہد سامنے آنے پر کسی بھی الزامات پر غور کرے گی‘۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی مسلح افواج نے افغانستان میں جرأت اور پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ خدمات انجام دیں اور ہم انہیں ہمیشہ اعلیٰ ترین معیار پر فائز رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

امریکی حملوں میں 39 افغان شہری ہلاک: اقوام متحدہ

Afghanistan: افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ جنگ کا اختتام

منگل کو مکمل طور پر نشر ہونے والی پینوراما تحقیقات نے نومبر 2010 سے مئی 2011 تک صوبہ ہلمند کے 6 ماہ کے دورے کے دوران ایک ایس اے ایس یونٹ کے ذریعے مشتبہ حالات میں گولی مار کر ہلاک کیے گئے 54 افراد کی نشاندہی کی۔ کارروائی کے بعد کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر افسران یونٹ کی جانب سے ہونے والی ہلاکتوں کی بلند شرح پر حیران ہیں کیونکہ ایس اے ایس فوجیوں میں سے کسی نے بھی طالبان کے ساتھ فائرنگ کے دوران زخمی ہونے کی اطلاع نہیں دی۔

خصوصی فورسز کے ہیڈکوارٹرز کے ایک سینئر افسر نے پینوراما کو بتایا کہ 'رات گئے چھاپوں میں بہت سارے لوگ مارے جارہے تھے اور وضاحتیں بے معنی تھیں، کسی کو حراست میں لے لیا جائے تو اسے ہلاک نہیں کیا جانا چاہیے، ایسا بار بار ہونا ہیڈکوارٹرز میں خطرے کی گھنٹی کا باعث بن رہا تھا، اس وقت یہ واضح تھا کہ کچھ غلط ہے'۔ اس بات پر خاص تشویش پائی جاتی تھی کہ چھاپوں کے بعد افغان رہائشی کمپاؤنڈز میں جائے وقوع پر ایس اے ایس کی گولیوں کے سوراخ پائے گئے جو سب نیچے کی جانب تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشتبہ افراد گھٹنے ٹیک رہے تھے یا زمین پر جھک رہے تھے۔

بی بی سی نے کہا کہ کئی انتباہات کو چین آف کمانڈ سے منسلک کیا گیا تھا لیکن ایس اے ایس اسکواڈرن کو اپنا 6 ماہ کا دورہ ختم کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اسے 2012 میں دوسرے دورے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ 2014 میں رائل ملٹری پولیس نے افغانستان میں برطانوی افواج کے 600 سے زائد مبینہ جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا، جس میں ایس اے ایس اسکواڈرن کے ہاتھوں متعدد ہلاکتیں بھی شامل تھیں لیکن آر ایم پی کے تفتیش کاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں برطانوی فوج نے روک دیا اور تحقیقات 2019 میں ختم ہوگئیں۔ 2011 میں افغانستان میں رائل میرینز کے کمانڈر رہنے والے کرنل اولیور لی نے بتایا کہ یہ الزامات ناقابل یقین حد تک چونکا دینے والے ہیں اور ان کی مکمل عوامی انکوائری کی ضرورت ہے۔ (یو این آئی)

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.