انقرہ: ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد 41 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ ترکیہ میں 35,418 اور ہمسایہ ملک شام میں تقریباً 5,800 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے آنے والے زلزلے کے باعث ملک میں اب تک 35 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس زلزلے کو 'صدی کی آفت' قرار دیتے ہوئے ترکیہ کے صدر نے کہا کہ 13 ہزار سے زائد افراد اب بھی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ زلزلے کے بعد بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد میں سے کئی اب بھی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور ملک میں شدید سردی ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
اردوان نے کہا کہ 6 فروری کو ملک کے جنوبی حصے میں ریکٹر اسکیل پر 7.7 اور 7.6 کی شدت کے تباہ کن زلزلے سے دس صوبے کے 1.30 کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ اردوان نے دارالحکومت انقرہ میں کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا کہ زلزلے میں زخمی ہونے والے 13,208 افراد اب بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ترکیہ کی ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 2,49,000 سے زائد سرچ اینڈ ریسکیو اہلکار امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اب تک تقریباً 1,95,962 افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکالا جا چکا ہے۔ ترکیہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے پوری دنیا سے تعزیت کا اظہار کیا گیا اور بھارت سمیت کئی ممالک نے امدادی ٹیمیں اور سامان بھیج رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- UAE Field Hospital in Turkey یو اے ای نے ترکی متاثرین کے لیے سب سے بڑا فیلڈ اسپتال کھولا
- Turkish Ambassador Thanks India ترک سفیر نے مشکل وقت میں اپنے ملک کی امداد کرنے پر بھارت کا شکریہ ادا کیا
ترکیہ کے وزیر صحت فرحتین کوکا نے کہا کہ ملک کی وزارت خارجہ نے کل کہا کہ 82 ممالک کے کل 9,046 غیر ملکی اہلکار اس وقت آفت زدہ علاقے میں امدادی کارروائیوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 100 ممالک نے امداد کی پیشکش کی ہے۔ واضح رہے کہ ترکیہ کے جنوبی صوبے کہرامانماراس میں 6 فروری کو مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بج کر 17 منٹ پر 7.8 شدت کا پہلا زلزلہ آیا تھا۔ اس کے چند منٹ بعد ملک کے جنوبی صوبے غازیانٹیپ میں 6.4 شدت کا زلزلہ آیا اور پھر دوپہر کے وقت 01 بج کر 24 منٹ پر کہرامانماراس میں دوبارہ 7.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ترکیہ میں 1939 کے ایرزنکن زلزلے میں تقریباً 33000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حالیہ زلزلوں میں تصدیق شدہ اموات کے اعداد و شمار میں یہ تعداد پیچھے رہ گئی ہے۔