اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ ٹرائل کی کارروائی کو چیلنج کرنے والی سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دائر درخواست پر 23 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا، یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے سربراہ کی جانب سے جسٹس عامر فاروق کی بینچ سے دستبرداری کے لیے درخواست دائر کرنے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی درخواست کو زیر التوا سمجھا جائے اور 7 روز کے اندر اس پر نئے سرے سے فیصلہ کیا جائے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’زیر سماعت درخواست کو زیر التوا سمجھا جائے گا اور اس فیصلے کی وصولی سے 7 دن کے اندر اندر زیر بحث قانون اور اوپر کیے گئے مشاہدات کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ٹرائل کورٹ کے ذریعے نئے سرے سے فیصلہ کیا جائے گا۔‘
ہائی کورٹ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ’سیشن کورٹ نے مسئلے کو فیصلہ کیے بغیر چھوڑ دیا اور درخواست گزار کی درخواست کو ناکافی وجوہات کے ساتھ خارج کر دیا تھا جس کی وجہ سے اہم قانونی مسائل غیر فیصلہ کن رہے یا حل نہیں ہوئے۔‘فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کے لیے آئین کے آرٹیکل ’اے 10‘ کی دفعات کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلی وجوہات کے ساتھ فریقین کو سننے کے بعد درخواست پر نئے سرے سے فیصلہ کرنا ہی مناسب ہوگا۔
اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ ٹرائل قابل سماعت قرار دیا تھا جسے انہوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔ (یو این آئی)