کابل: غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق کسی بھی غیر ملکی ملک کی طرف سے باضابطہ طور پر حکومت تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے طالبان گروپ بین الاقوامی پابندیوں کے سخت نفاذ اور ترقیاتی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ واشنگٹن سمیت بہت سی حکومتوں نے طالبان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ خواتین پر پابندیاں کم کریں اور ہائی اسکول کی عمر کی لڑکیوں کے لیے اسکول کھولیں۔Taliban Leader on Foreign Relations
سرکاری خبر رساں ایجنسی بختار کے مطابق تقریباً 3ہزار قبائلی رہنما، حکام اور مذہبی اسکالرز جنوبی شہر قندھار میں جمع ہوئے تھے جہاں گروپ کے اعلیٰ روحانی پیشوا ہیبت اللہ اخوندزادہ مقیم ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل اس گروپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ اس طرح کا دوسرا اجتماع تھا۔ انہوں نے تقریر میں کہا کہ ’یہ اجتماع اس آزادی کے بارے میں سوچنے کے لیے بلایا گیا ہے جو ہمیں اللہ کی نعمت سے ملی ہے، جو ہم نے اپنے مجاہدین (جنگجوؤں) کے خون سے حاصل کی ہے۔ ہیبت اللہ نے کہا کہ ہم عالمی برادری کے ساتھ اسلامی شریعت کے مطابق معاملہ اور تعلقات رکھیں گے، اگر شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی تو ہم کسی دوسرے ملک کے ساتھ معاہدہ نہیں کریں گے۔
طالبان کی امریکی سفارت کاروں کے ساتھ بات چیت جاری ہے، خاص طور پر ملک کے رکے ہوئے بینکنگ سیکٹر اور بیرون ملک منجمد مرکزی بینک کے اثاثوں کی ممکنہ بحالی کے بارے میں ہے لیکن حکام نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی پیش رفت میں بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔ کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب امریکہ نے گزشتہ ماہ وسطی کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے کے لیے ڈرون حملہ کیا اور طالبان پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایمن الظواہری کو پناہ دے کر امریکہ کی ساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
تمام ممالک کے ساتھ تعلقات عظیم تر قومی مفاد میں استوار کیے جائیں گے: طالبان
Maulvi Hebatullah Akhundzada: افغانستان کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت نہ کریں، طالبان
Mullah Haibatullah Akhunzada: افغانستان تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، طالبان سپریم لیڈر
بختار نیوز ایجنسی کے مطابق طالبان کے اجتماع نے متعدد قراردادیں منظور کیں جن میں سے ایک میں ڈرون حملے کی مذمت کی گئی اور دوسری قرارداد میں کہا گیا کہ کسی بھی پڑوسی ملک نے حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کی تو یہ اس کی خلاف ورزی ہوگی۔ امریکہ کو عام طور پر افغانستان کی فضائی حدود تک رسائی کے لیے پڑوسی ملک سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکام نے ڈرون کے راستے کا انکشاف نہیں کیا لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ ان کی فضائی حدود حملے کے لیے استعمال نہیں کی گئی۔ (یو این آئی)