ETV Bharat / international

Hamid Karzai on Taliban: طالبان کو پہلے اپنے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے، سابق افغان صدر حامد کرزئی

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا کہ افغان حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے جس سے آبادی کے تمام طبقات ایسا محسوس ہو کہ حکومت تمام طبقے کی نمائندگی کر رہی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی ایک ایسا قدم ہے جو ملک کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے۔Hamid Karzai on Taliban

Former Afghan President Karzai
سابق افغان صدر کرزئی
author img

By

Published : Aug 11, 2022, 10:59 PM IST

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا قدم ملک کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آبادی کے تمام طبقات حکومت کی طرف سے نمائندگی محسوس کریں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام افغان عوام خود کو اس ملک سے تعلق رکھنے والے اور حکومت کی طرف سے نمائندگی کرنے والے کے طور پر دیکھیں اور یہ کہ ہم باقی دنیا کو یہ ثابت کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں کہ ہمارا مطلب اور مقصد افغانستان کے لیے اچھا ہے۔ انھوں نے یہ ساری باتیں امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔Hamid Karzai on Taliban

گزشتہ برس اگست میں جب طالبان نے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لیا صدر سمیت ہزاروں افغان اپنا وطن چھوڑ کر چلے گئے۔ 2002 سے 2014 تک افغانستان کے صدر رہے حامد کرزئی ان میں سے نہیں تھے۔ خامہ پریس کے مطابق، کرزئی نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے منجمد غیر ملکی ذخائر کو غیر منجمد کرکے افغان عوام کی مدد کریں، انہوں نے انخلاء کے عمل اور امریکی افواج کے انخلاء کو انتہائی بے عزتی قرار دیا۔

طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بھی ابتر ہو گئی ہے۔طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے آزادی اظہار، انجمن، اجتماع اور نقل و حرکت کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ طالبان کی جانب سے چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے اسکول جانے پر پابندی کے فیصلے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مزید برآں، طالبان حکومت نے خواتین کے حقوق اور آزادیوں کو بھی محدود کر دیا ہے اور معاشی بحران اور پابندیوں کی وجہ سے خواتین کو زیادہ تر افرادی قوت سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو انسانی حقوق کے بحران کا سامنا ہے، وہ بلا امتیاز تعلیم، کام، عوامی شرکت اور صحت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Hamid Karzai on Taliban Hijab Decree: طالبان کے احکامات سے افغانستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا، حامد کرزئی کا بیان

Former Afghan President Hamid Karzai: ’طالبان نے افغان دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انہیں مدعو کیا گیا تھا‘

ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے مطابق، خواتین اور لڑکیوں کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے بھی روکا جاتا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لڑکیوں کو اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دینا عالمی برادری کے اہم مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔زیادہ تر ممالک نے طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کے لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ سلوک اور انسانی حقوق کے دیگر مسائل پر تشویش پائی جاتی ہے۔ خواتین کو اب اس وقت تک سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ کو مرد رشتہ دار ان کے ساتھ نہ ہوں اگرچہ ملک میں لڑائی ختم ہو چکی ہے لیکن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا قدم ملک کو مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آبادی کے تمام طبقات حکومت کی طرف سے نمائندگی محسوس کریں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام افغان عوام خود کو اس ملک سے تعلق رکھنے والے اور حکومت کی طرف سے نمائندگی کرنے والے کے طور پر دیکھیں اور یہ کہ ہم باقی دنیا کو یہ ثابت کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں کہ ہمارا مطلب اور مقصد افغانستان کے لیے اچھا ہے۔ انھوں نے یہ ساری باتیں امریکہ کے نیشنل پبلک ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔Hamid Karzai on Taliban

گزشتہ برس اگست میں جب طالبان نے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لیا صدر سمیت ہزاروں افغان اپنا وطن چھوڑ کر چلے گئے۔ 2002 سے 2014 تک افغانستان کے صدر رہے حامد کرزئی ان میں سے نہیں تھے۔ خامہ پریس کے مطابق، کرزئی نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے منجمد غیر ملکی ذخائر کو غیر منجمد کرکے افغان عوام کی مدد کریں، انہوں نے انخلاء کے عمل اور امریکی افواج کے انخلاء کو انتہائی بے عزتی قرار دیا۔

طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بھی ابتر ہو گئی ہے۔طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے آزادی اظہار، انجمن، اجتماع اور نقل و حرکت کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ طالبان کی جانب سے چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے اسکول جانے پر پابندی کے فیصلے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مزید برآں، طالبان حکومت نے خواتین کے حقوق اور آزادیوں کو بھی محدود کر دیا ہے اور معاشی بحران اور پابندیوں کی وجہ سے خواتین کو زیادہ تر افرادی قوت سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو انسانی حقوق کے بحران کا سامنا ہے، وہ بلا امتیاز تعلیم، کام، عوامی شرکت اور صحت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Hamid Karzai on Taliban Hijab Decree: طالبان کے احکامات سے افغانستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا، حامد کرزئی کا بیان

Former Afghan President Hamid Karzai: ’طالبان نے افغان دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انہیں مدعو کیا گیا تھا‘

ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے مطابق، خواتین اور لڑکیوں کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے بھی روکا جاتا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لڑکیوں کو اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دینا عالمی برادری کے اہم مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔زیادہ تر ممالک نے طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کے لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ سلوک اور انسانی حقوق کے دیگر مسائل پر تشویش پائی جاتی ہے۔ خواتین کو اب اس وقت تک سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ کو مرد رشتہ دار ان کے ساتھ نہ ہوں اگرچہ ملک میں لڑائی ختم ہو چکی ہے لیکن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.