ETV Bharat / international

Taliban govt On Female Employee طالبان نے این جی او کو خواتین ملازمین پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا

قومی اور بین الاقوامی تنظیموں میں خواتین کی جانب سے اسلامی حجاب اور دیگر اصول و ضوابط پر عمل نہ کرنے کی سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد طلبان نے تمام اداروں کو حکم دیا ہے کہ آئندہ احکامات تک خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگائی جائے۔Taliban Orders NGOs to Ban Female Employee

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Dec 25, 2022, 5:32 PM IST

Updated : Dec 25, 2022, 6:54 PM IST

کابل: افغانستان کی طالبان حکومت نے ڈریس کوڈ سے متعلق سنگین شکایات موصول ہونے کے بعد تمام قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی خواتین ملازمین کے کام کرنے پر پابندی لگائیں۔ یہ اطلاع اقتصادیات کی وزارت نے ہفتہ کو میڈیا کو دی۔Taliban govt On Female Employee

طالبان حکومت نے دھمکی دی ہے کہ جواین جی او حکم پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو گی، اس کا آپریٹنگ لائسنس معطل کر دیا جائے گا ۔ یہ نئی پابندی طالبان کی حکومت کی جانب سے خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے بعد لگائی گئی ہے، جس کے تعلق سے عالمی سطح پر غم و غصہ اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم، طالبان نے گزشتہ سال اگست میں اقتدار میں واپس آنے پر حکمرانی میں نرمی کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس نے اس کے برخلاف خواتین پر سخت پابندیاں عائد کیں اور انہیں عوامی زندگی سے مؤثر طریقے سے باہر کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اور بین الاقوامی تنظیموں میں خواتین کی جانب سے اسلامی حجاب اور دیگر اصول و ضوابط پر عمل نہ کرنے کی سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اس لیے وزارت اقتصادیات نے تمام اداروں کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ احکامات تک خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ مندرجہ بالا ہدایات کی تعمیل میں ناکامی کے نتیجے میں اس وزارت کی طرف سے تنظیم کو جاری کردہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ اس کی تصدیق وزارت اقتصادیات کے ترجمان نے بھی کی ہے۔دو بین الاقوامی این جی اوز نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اطلاع موصول ہوئی ہے۔

افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بارہ سے زائد قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کام کر رہی ہیں اور ان میں سے اکثر خواتین کی ہیں۔ یہ حکم افغان خواتین کے حقوق پر تازہ ترین حملہ ہے۔اس سے قبل منگل کو طالبان حکومت نے تمام خواتین کے یونیورسٹیوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی امریکہ، اقوام متحدہ اور کئی مسلم ممالک نے مذمت کی تھی۔یہ پابندی تین ماہ سے بھی کم عرصےمیں عائد کی گئی جب ہزاروں خواتین کو یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت ۔ اس حکم کی مخالفت میں، تقریباً 400 مرد طلباء کی طرف سے ایک زبردست احتجاج اس وقت ہوا جب انہوں نے جنوبی شہر قندھار میں ایک امتحان کا بائیکاٹ کیا، جو کہ طالبان کا اصل طاقت کا مرکز ہے۔

میرواعظ نیکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ طالبان فورسز کو طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں گولی چلانا پڑی تھی۔ طالبان نے پہلے ہی نوعمر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے زبردستی نکال دیا تھا۔خواتین پر مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے پر پابندی ہے اور انہیں گھر سے باہر برقعہ پہننا ہوگا۔ انہیں پارک یا باغات میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان نے حالیہ دنوں میں مردوں اور عورتوں پر کھلے عام کوڑا برسانا بھی شروع کر دیا ہے۔ کوڑے مارنے کی سزا اسلامی قانون کی ایک وسیع تشریح کے اندر بحال کری گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Taliban On Girls Schools طالبان کا لڑکیوں کے اسکولوں، یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے امکان پر تبادلہ خیال

یو این آئی

کابل: افغانستان کی طالبان حکومت نے ڈریس کوڈ سے متعلق سنگین شکایات موصول ہونے کے بعد تمام قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی خواتین ملازمین کے کام کرنے پر پابندی لگائیں۔ یہ اطلاع اقتصادیات کی وزارت نے ہفتہ کو میڈیا کو دی۔Taliban govt On Female Employee

طالبان حکومت نے دھمکی دی ہے کہ جواین جی او حکم پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو گی، اس کا آپریٹنگ لائسنس معطل کر دیا جائے گا ۔ یہ نئی پابندی طالبان کی حکومت کی جانب سے خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے بعد لگائی گئی ہے، جس کے تعلق سے عالمی سطح پر غم و غصہ اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم، طالبان نے گزشتہ سال اگست میں اقتدار میں واپس آنے پر حکمرانی میں نرمی کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس نے اس کے برخلاف خواتین پر سخت پابندیاں عائد کیں اور انہیں عوامی زندگی سے مؤثر طریقے سے باہر کر دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی اور بین الاقوامی تنظیموں میں خواتین کی جانب سے اسلامی حجاب اور دیگر اصول و ضوابط پر عمل نہ کرنے کی سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اس لیے وزارت اقتصادیات نے تمام اداروں کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ احکامات تک خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ مندرجہ بالا ہدایات کی تعمیل میں ناکامی کے نتیجے میں اس وزارت کی طرف سے تنظیم کو جاری کردہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ اس کی تصدیق وزارت اقتصادیات کے ترجمان نے بھی کی ہے۔دو بین الاقوامی این جی اوز نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اطلاع موصول ہوئی ہے۔

افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بارہ سے زائد قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کام کر رہی ہیں اور ان میں سے اکثر خواتین کی ہیں۔ یہ حکم افغان خواتین کے حقوق پر تازہ ترین حملہ ہے۔اس سے قبل منگل کو طالبان حکومت نے تمام خواتین کے یونیورسٹیوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی امریکہ، اقوام متحدہ اور کئی مسلم ممالک نے مذمت کی تھی۔یہ پابندی تین ماہ سے بھی کم عرصےمیں عائد کی گئی جب ہزاروں خواتین کو یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت ۔ اس حکم کی مخالفت میں، تقریباً 400 مرد طلباء کی طرف سے ایک زبردست احتجاج اس وقت ہوا جب انہوں نے جنوبی شہر قندھار میں ایک امتحان کا بائیکاٹ کیا، جو کہ طالبان کا اصل طاقت کا مرکز ہے۔

میرواعظ نیکا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ طالبان فورسز کو طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں گولی چلانا پڑی تھی۔ طالبان نے پہلے ہی نوعمر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے زبردستی نکال دیا تھا۔خواتین پر مرد رشتہ دار کے بغیر سفر کرنے پر پابندی ہے اور انہیں گھر سے باہر برقعہ پہننا ہوگا۔ انہیں پارک یا باغات میں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان نے حالیہ دنوں میں مردوں اور عورتوں پر کھلے عام کوڑا برسانا بھی شروع کر دیا ہے۔ کوڑے مارنے کی سزا اسلامی قانون کی ایک وسیع تشریح کے اندر بحال کری گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Taliban On Girls Schools طالبان کا لڑکیوں کے اسکولوں، یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے امکان پر تبادلہ خیال

یو این آئی

Last Updated : Dec 25, 2022, 6:54 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.