اہانت رسول کے معاملے پر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بھارت خلیجی ممالک کے بارے میں اتنا حساس کیوں ہے؟ کس وجہ سے بھارت نے خلیجی ممالک سے خراب ہوتے رشتوں کو فورا کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور اپنے ترجمانوں پر کاروائی کرتے ہوئے انھیں معطل کردیا، آخر وہ بی جے پی جس کی سیاست ہی مذہب پر ٹکی ہو اس پارٹی کو مذہبی منافرت والے بیوں پر کاروائی کرنے کے لیے کس عوامل نے مجبور کیا، اس لیے یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ خلیجی ممالک اور گلف کوآپریشن تعاون (GCC) کے ساتھ تعلقات بھارت کے لیے اتنے اہم کیوں ہیں۔ آیئے اس کی مکمل وجہ جانتے ہیں۔ Prophet Comments Row
21-2020 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت نے اسن چھ خلیجی ممالک سے 110.73 بلین ڈالر کا تیل درآمد کیا۔ اس دوران بھارت نے ان ممالک کو 44 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ وہیں بھارت میں این آر آئیز کی تعداد تقریباً 32 ملین ہے۔ ان کی نصف آبادی خلیجی ممالک میں رہتی ہے جس کی وجہ سے بھارت کو ان سے کافی زیادہ زرمبادلہ موصول ہوتا ہے۔Gulf Nations Are Important For India
یہ بھی پڑھیں: OIC Slams India: بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں، او آئی سی کا یواین سے مطالبہ
متحدہ عرب امارات: یو اے ای 2021-22 میں بھارت کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی باہمی تجارت 2021-22 میں بڑھ کر 72.9 بلین ڈالر ہو گئی، جو کہ 2020-21 میں 43.3 بلین ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے 2030 تک دو طرفہ تجارتی تجارت کو 100 بلین ڈالر تک بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ فروری 2022 میں اس پر دستخط بھی ہو چکے ہیں۔ بھارت پہلے ہی متحدہ عرب امارات کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔ 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پی ایم مودی نے کئی بار متحدہ عرب امارات کا دورہ کرچکے ہیں۔ ابوظہبی بھی نئی دہلی کو ترجیح دیتا ہے۔ 2018 میں، پی ایم مودی نے ابوظہبی میں قائم ہونے والے پہلے ہندو مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی۔ یو اے ای نے پی ایم مودی کو 2019 میں اپنا سب سے بڑا شہری اعزاز ’آرڈر آف زید‘ سے بھی نوازا تھا۔
سعودی عرب: سعودی عرب بھارت کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت 2021-22 میں 43 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو کہ پچھلے مالی سال میں 22 بلین ڈالر تھی۔ بھارت سعودی کو چاول، گوشت، برقی مشینری، گاڑیاں وغیرہ برآمد کرتا ہے جب کہ ان سے تیل درآمد کرتا ہے۔ او آر ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق، عراق 2020-21 میں بھارت کو تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔اس کے بعد سعودی دوسرے نمبر پر تھا۔ 2016 میں سعودی عرب نے وزیر اعظم مودی کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز عبدالعزیز السعود سے نوازا تھا۔ بھارت نے عمان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ کئی مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی حصہ لیا ہے۔
قطر: بھارت قطر سے سالانہ 8.5 ملین ٹن ایل این جی Liquefied natural gas درآمد کرتا ہے اور اناج سے لے کر گوشت، مچھلی، کیمیکل اور پلاسٹک تک کی مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ بھارت اور قطر کے درمیان دو طرفہ تجارت 2020-21 میں $9.21 بلین سے بڑھ کر 2021-22 میں $15 بلین تک پہنچ گئی ہے۔ بھارت کی قدرتی گیس کی کل درآمدات کا تقریباً 41% قطر سے آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Derogatory Remarks Against Prophet: یو اے ای، اردن، مالدیپ اور انڈونیشیا نے بھی اہانت آمیز بیانات کی مذمت کی
کویت: گزشتہ مالی برس میں کویت بھارت کا 27 واں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت 2021-22 میں بڑھ کر 12.3 بلین ڈالر ہو گئی ہے جو پچھلے مالی سال میں 6.3 بلین ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ زیادہ تر بیرون ملک مقیم بھارتی بھی یہاں رہتے ہیں۔
عمان: یہ 2021-22 میں بھارت کا 31 واں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار تھا۔ اس کے ساتھ، بھارت کی باہمی تجارت 2020-21 میں 5.5 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2021-22 میں تقریباً 10 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
بحرین: بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت 2021-22 میں $1.65 بلین رہی، جو کہ 2020-21 میں $1 بلین تھی۔ پی ایم مودی کو 2019 میں بحرین کا اعلیٰ ترین ایوارڈ دی کنگ حماد آرڈر آف دی رینائسنس سے بھی نوازا گیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو فوری نقصان تو پہنچے گا لیکن طویل مدت میں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سابق سفارت کار تلمیز احمد، جو سعودی عرب، یو اے ای اور عمان میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے ہیں، نے کہا کہ یہ معاملہ خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے۔ وہ ہمیں مستقبل کے شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ایسی غیر ضروری چیزیں جن سے بدامنی پیدا ہوتی ہے ان کو روکنا چاہیے۔
سابق سفیر نے کہا کہ خلیج کے ہر ملک میں ہندوستانی برادریوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ بھارت کو وہاں ایک جدید، لبرل، سیکولر، تکثیری اور جمہوری ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں وہاں غیر سیاسی اور غیر جانب دار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری پہلی فکر ہماری اقدار اور شہرت کی ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات ہمارے وہاں جانے والے لوگوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اور یہ میری سب سے بڑی تشویش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Qatar Summons Indian Envoy: پیغمبراسلامﷺ کی شان میں گستاخی، قطر، کویت کے بعد ایران نے بھی بھارتی سفیر کو طلب کیا
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے دو طرفہ تعلقات پر بھی اثر پڑے گا تو سابق سفیر تلمیز احمد نے کہا کہ شاید ابھی نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاروباری تعلقات ایک دوسرے کے معاشی مفادات پر منحصر ہوتے ہیں، ہم اپنی توانائی کی ضروریات ان سے حاصل کرتے ہیں اور وہ ہم سے اشیائے خورد و نوش درآمد کرتے ہیں۔
اسی معاملے پر ایک اور سابق سفیر جے کے ترپاٹھی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت میں کہا، 'یہ معاملات دو طرفہ تعلقات کو متاثر نہیں کرنے والے ہیں۔ ایسے واقعات کا فوری اثر ہوتا ہے۔عام طور پر اگر کسی ملک میں اقلیتوں کو کچھ ہوتا ہے تو اس کے لیے پروٹوکول ہوتے ہیں، احتجاج ریکارڈ کرانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مالدیپ جیسے ملک نے بھی اس معاملے کو اٹھایا ہے۔ یہاں ہمارا مقابلہ چین سے ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد یہاں پر بھارت کی پوزیشن میں کافی بہتری آئی ہے۔
سابق سفیر انل تریگنایت نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات مذہبی جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے تھے۔ اب زیادہ تر ممالک بھارت کے سرکاری موقف کو سمجھ چکے ہیں۔ بی جے پی نے انہیں معطل بھی کر دیا ہے لیکن جو احساسات عوام تک پہنچ چکے ہیں، ان کے زائل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ انفرادی اور دو طرفہ سطح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مستقبل میں ایسا کوئی بیان کسی مذہب کے خلاف نہ آئے۔