ETV Bharat / international

Hamas Israel war حماس کی مذمت کرنے سے پہلے اسرائیلی فوج کی مذمت کرنی چاہیے: فلسطینی سفیر

author img

By ANI

Published : Oct 9, 2023, 4:27 PM IST

بھارت میں فلسطینی سفیر نے کہا کہ 2023 میں اب تک 260 فلسطینی مارے جاچکے ہیں، 5000 سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں ہیں، ان فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟ وہ سب کے سب سویلین ہیں وہ رہائی کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں، اس پر عالمی برادری مذمت نہیں کرتی ہے۔ اب جو بھی حماس کے حملے کی مذمت کرنا چاہتا ہے اسے اس سے پہلے اسرائیلی فوج اور ان کے آباد کاروں کی مذمت کرنی چاہیے جو وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں روزانہ چھاپوں کی شکل میں انجام دیتے ہیں۔

Etv Bharat
بھارت میں فلسطینی سفیر عدنان ابو الحیجہ

نئی دہلی: بھارت میں فلسطین کے سفیر عدنان ابو الحیجہ نے اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ انھوں نے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی برسوں سے جاری جارحیت کی مذمت نہ کرنے پر عالمی رہنماؤں سے سوال کیا۔ جب فلسطینی سفیر سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حماس کے حملے کی مذمت کر رہے ہیں تو انہوں نے صاف طور سے انکار کردیا اور کہا کہ حماس فلسطینی عوام کا حصہ ہے اور میں غزہ پر ان کے قبضے کی مذمت کرتا ہوں اگر قبضہ نہ ہوتا تو حماس نہ ہوتا اور حکومتی بازو کے علاوہ کوئی دوسرا بازو نہ ہوتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے پاس اس کی افواج ہے اور وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں وہی سب کچھ کر رہی ہے جو اس وقت حماس شاید ان کے ساتھ کر رہا ہے لیکن حماس کا آپریشن تھوڑا بڑا ہے۔ لیکن کوئی بھی اسرائیلی فوج کی مذمت نہیں کرتا جو روزانہ مغربی کنارے میں کرتے ہیں۔

اے این آئی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں فلسطینی سفیر نے کہا کہ 2023 میں اب تک 260 فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔ 5000 سے زائد لوگ اسرائیلی جیلوں میں ہیں اور تقریباً 300 افراد اسرائیل میں حراست میں ہیں۔ جس پر عالمی برادری خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟ میں جس فلسطینی کی بات کر رہا ہوں وہ اس سال کے آغاز سے اب تک 260 افراد مارے جا چکے ہیں، وہ سب کے سب سویلین ہیں اور جو اسرائیلی جیلوں میں ہیں وہ رہائی کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے اور اب جو بھی حماس کے حملے کی مذمت کرنا چاہتا ہے اسے اس سے پہلے اس کی مذمت کرنی چاہیے جو اسرائیلی اور ان کے آباد کار مغربی کنارے میں کرتے ہیں۔

فلسطینی سفیر عدنان ابو الحیجہ نے کہا کہ کوئی بھی تنازع شروع سے ہی برا ہوتا ہے لیکن لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حماس نے حملہ کیوں کیا؟ اب اگر آپ صورت حال پر نظر ڈالیں تو ہم اسے برسوں پہلے تک لے جا سکتے ہیں۔ ہمیں اسرائیلی افواج اور ان کی آبادکار مسلح ملیشیاؤں کے ہاتھوں برسوں کے قتل عام کی طرف واپس جانا چاہیے۔ انہوں کہا کہ اس سال کے آغاز سے اب تک فلسطین میں 260 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا، اس پر کوئی بات نہیں کرتا، کسی نے اس کی مذمت نہیں کی۔ اسرائیلی ہر روز زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں، بستیاں تعمیر کرتے ہیں، لوگوں کو جیلوں میں ڈالتے ہیں، لوگوں کو مارتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہودی آباد کار وہی کر رہے ہیں جو اسرائیلی قابض افواج فلسطینیوں کا قتل کر کے اپنا دفاع کرتے ہیں میرے خیال میں اسرائیل میں وہ ایک ایسے نظام کے تحت کام کرتے ہیں جس میں ان کی عدالتیں بھی شامل ہیں۔ کیونکہ جب کسی آباد کار کو فلسطینیوں پر حملہ کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اسے مارا نہیں جاتا ہے لیکن جب کوئی فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف کچھ کرتا تو چند گھنٹوں میں اسے پکڑ لیتے ہیں اور فورا شوٹ بھی کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ملزم آبادکار کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو اس کی سزا یہ ہوگی کہ ملزم کو دو ہفتے مغربی کنارے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا وہ اس نظام میں ہائی کورٹ سے لے کر حکومت تک، پولیس تک، آباد کاروں تک اپنے تمام جرائم اور مدعا علیہ خود بناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

فلسطینی سفیر نے کہا کہ اسرائیل ایک ہی وقت میں امن اور زمین دونوں چاہتا ہے جو اسے کبھی نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اسرائیلیوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے اوسلو معاہدے پر بات ہوئی تھی۔ ا نھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اوسلو معاہدے پر 30 سال پہلے دستخط کیے ہیں اور 1999 کے بعد ہمیں خود مختار ہونا چاہیے۔ لیکن اسرائیلی اس وقت ان معاہدوں کو تباہ کر رہے ہیں اور دو ریاستی حل کو تباہ کر رہے ہیں۔ وہ بیک وقت امن اور زمین چاہتے ہیں جو انہیں کبھی نہیں ملے گا۔کیوں کہ ہمیں بھی دنیا کے دیگر لوگوں کی طرح امن سے رہنے کا حق حاصل ہے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ پٹی میں فلسطین کا مزاحمتی گروپ حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا جس میں اب تک 700 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 2000 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل نے بھی غزہ پر بڑے پیمانے پر حملہ شروع کردیا ہے۔ فلسطین کی وارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 493 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 90 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔

نئی دہلی: بھارت میں فلسطین کے سفیر عدنان ابو الحیجہ نے اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ انھوں نے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی برسوں سے جاری جارحیت کی مذمت نہ کرنے پر عالمی رہنماؤں سے سوال کیا۔ جب فلسطینی سفیر سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حماس کے حملے کی مذمت کر رہے ہیں تو انہوں نے صاف طور سے انکار کردیا اور کہا کہ حماس فلسطینی عوام کا حصہ ہے اور میں غزہ پر ان کے قبضے کی مذمت کرتا ہوں اگر قبضہ نہ ہوتا تو حماس نہ ہوتا اور حکومتی بازو کے علاوہ کوئی دوسرا بازو نہ ہوتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے پاس اس کی افواج ہے اور وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں وہی سب کچھ کر رہی ہے جو اس وقت حماس شاید ان کے ساتھ کر رہا ہے لیکن حماس کا آپریشن تھوڑا بڑا ہے۔ لیکن کوئی بھی اسرائیلی فوج کی مذمت نہیں کرتا جو روزانہ مغربی کنارے میں کرتے ہیں۔

اے این آئی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں فلسطینی سفیر نے کہا کہ 2023 میں اب تک 260 فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔ 5000 سے زائد لوگ اسرائیلی جیلوں میں ہیں اور تقریباً 300 افراد اسرائیل میں حراست میں ہیں۔ جس پر عالمی برادری خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟ میں جس فلسطینی کی بات کر رہا ہوں وہ اس سال کے آغاز سے اب تک 260 افراد مارے جا چکے ہیں، وہ سب کے سب سویلین ہیں اور جو اسرائیلی جیلوں میں ہیں وہ رہائی کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے اور اب جو بھی حماس کے حملے کی مذمت کرنا چاہتا ہے اسے اس سے پہلے اس کی مذمت کرنی چاہیے جو اسرائیلی اور ان کے آباد کار مغربی کنارے میں کرتے ہیں۔

فلسطینی سفیر عدنان ابو الحیجہ نے کہا کہ کوئی بھی تنازع شروع سے ہی برا ہوتا ہے لیکن لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حماس نے حملہ کیوں کیا؟ اب اگر آپ صورت حال پر نظر ڈالیں تو ہم اسے برسوں پہلے تک لے جا سکتے ہیں۔ ہمیں اسرائیلی افواج اور ان کی آبادکار مسلح ملیشیاؤں کے ہاتھوں برسوں کے قتل عام کی طرف واپس جانا چاہیے۔ انہوں کہا کہ اس سال کے آغاز سے اب تک فلسطین میں 260 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا، اس پر کوئی بات نہیں کرتا، کسی نے اس کی مذمت نہیں کی۔ اسرائیلی ہر روز زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں، بستیاں تعمیر کرتے ہیں، لوگوں کو جیلوں میں ڈالتے ہیں، لوگوں کو مارتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہودی آباد کار وہی کر رہے ہیں جو اسرائیلی قابض افواج فلسطینیوں کا قتل کر کے اپنا دفاع کرتے ہیں میرے خیال میں اسرائیل میں وہ ایک ایسے نظام کے تحت کام کرتے ہیں جس میں ان کی عدالتیں بھی شامل ہیں۔ کیونکہ جب کسی آباد کار کو فلسطینیوں پر حملہ کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اسے مارا نہیں جاتا ہے لیکن جب کوئی فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف کچھ کرتا تو چند گھنٹوں میں اسے پکڑ لیتے ہیں اور فورا شوٹ بھی کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ملزم آبادکار کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو اس کی سزا یہ ہوگی کہ ملزم کو دو ہفتے مغربی کنارے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا وہ اس نظام میں ہائی کورٹ سے لے کر حکومت تک، پولیس تک، آباد کاروں تک اپنے تمام جرائم اور مدعا علیہ خود بناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

فلسطینی سفیر نے کہا کہ اسرائیل ایک ہی وقت میں امن اور زمین دونوں چاہتا ہے جو اسے کبھی نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اسرائیلیوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے اوسلو معاہدے پر بات ہوئی تھی۔ ا نھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اوسلو معاہدے پر 30 سال پہلے دستخط کیے ہیں اور 1999 کے بعد ہمیں خود مختار ہونا چاہیے۔ لیکن اسرائیلی اس وقت ان معاہدوں کو تباہ کر رہے ہیں اور دو ریاستی حل کو تباہ کر رہے ہیں۔ وہ بیک وقت امن اور زمین چاہتے ہیں جو انہیں کبھی نہیں ملے گا۔کیوں کہ ہمیں بھی دنیا کے دیگر لوگوں کی طرح امن سے رہنے کا حق حاصل ہے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ پٹی میں فلسطین کا مزاحمتی گروپ حماس نے اسرائیل پر حملہ کردیا جس میں اب تک 700 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 2000 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل نے بھی غزہ پر بڑے پیمانے پر حملہ شروع کردیا ہے۔ فلسطین کی وارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 493 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 90 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.