اسلام آباد: حکومت پاکستان کا قرض اپریل کے آخر میں سالانہ بنیادوں پر 34.1 فیصد بڑھ کر 58.6 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا۔ یہ معلومات ملک کے مرکزی بینک کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں دی گئی ہے۔ منگل کو اخبار ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر قرضے میں 2.6 فیصد اضافہ ہوا۔
خبر کے مطابق، اپریل کے آخر میں گھریلو قرض 36.5 لاکھ کروڑ روپے (62.3 فیصد) ہے جبکہ بیرونی قرض 22 لاکھ کروڑ روپے (37.6 فیصد) ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ بنیادوں پر بیرونی قرضوں میں اضافہ 49.1 فیصد رہا۔ ایک ماہ قبل بیرونی قرضوں میں بھی یہی اعداد و شمار تھے۔ گھریلو قرضوں کا سب سے بڑا حصہ وفاقی حکومت کے پاس ہے، جو تقریباً 25 لاکھ کروڑ روپے کا قرض ہے۔
گھریلو قرضوں کے دیگر بڑے شراکت داروں میں قلیل مدتی قرضے (7.2 لاکھ کروڑ روپے) اور غیر فنڈ شدہ قرضے (2.9 لاکھ کروڑ روپے) ہیں، جن میں قومی بچت کی اسکیموں سے قرضے بھی شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے اسٹاک ہولڈنگز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 31.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ قلیل مدتی قرضوں کا حصہ 29.4 فیصد بڑھ گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
پاکستان ایک طویل عرصے سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے دوچار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر صرف ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے کافی ہیں۔دوسری طرف ریکارڈ بلند افراط زر کے درمیان شرح سود غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے پیش نظر ملکی قرض کی ادائیگی ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ ملک کو بہت بڑے سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا ہونے کے ساتھ ساتھ بھاری بیرونی قرضوں، کمزور مقامی کرنسی اور کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
ملک کے شماریات بیورو کے مطابق اپریل میں افراط زر کی سطح میں سالانہ 36.4 فیصد اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔