یانگون: میانمار کی فوج 6000 قیدیوں کو رہا کرے گی جن میں ایک سابق برطانوی سفیر، ایک جاپانی فلم پروڈیوسر اور ملک کے معزول لیڈر کے ایک آسٹریلوی مشیر بھی شامل ہیں۔ یہ معلومات جمعرات کو بی بی سی کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں دی گئی ہیں۔ بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ سابق سفارت کار وکی بومن اور تورو کوبوٹا کو اس سال کے شروع میں جیل بھیج دیا گیا تھا، جبکہ شان ٹرنل کو 2021 کی بغاوت کے فوراً بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ فوجی جنٹا (جس نے 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے 16,000 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا ہے) نے کہا کہ قیدیوں کو معافی میانمار کے قومی دن کے موقع پر دی گئی۔انہوں نے نشاندہی کی کہ فروری 2021 میں محترمہ آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور وسیع پیمانے پر مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔ Myanmar Army Will Release 6000 Prisoners
سفارت کار بومن نے 2002 اور 2006 کے درمیان میانمار میں برطانیہ کے ایلچی کے طور پر خدمات انجام دیں اور گرفتاری کے وقت یانگون میں قائم میانمار سینٹر فار ریسپانسبل بزنس (ایم سی آر بی) چلا رہے تھے۔ دریں اثنا، بی بی سی نے بتایا کہ ٹرنل کو فروری 2021 میں یانگون میں حراست میں لیا گیا تھا، فوج کی جانب سے بغاوت کے چند دن بعد، اور اسے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔وہ حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی کے قریبی مشیر تھے، جنہیں ان کی معزولی کے بعد سے کئی الزامات کے تحت 20 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
دستاویزی فلم ساز تورو کوبوٹا کو جولائی میں یانگون میں حکومت مخالف ریلی کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسے بغاوت اور الیکٹرانک کمیونیکیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ فلم ساز سائٹ فلم فری وے کے مطابق، "پروڈیوسر کوبوٹا نے اپنے کیریئر کا آغاز اس وقت کیا جب وہ 2014 میں جاپان میں ایک روہنگیا پناہ گزین سے ملے، اور اس کے بعد سے وہ میانمار میں پناہ گزینوں اور نسلی مسائل پر کئی فلمیں بنا چکے ہیں۔ میانمار کی فوج پر اقتدار پر قبضے کے بعد سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ مانیٹرنگ گروپ اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 2400 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یواین آئی