اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ان کے پاس جمع کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 مئی کو الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ journalist Shireen Abu Akleh پر گولیاں اسرائیلی فورسز نے چلائی تھیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) کی ترجمان روینہ شامدسانی نے جمعہ کو جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے جو بھی معلومات اکٹھا کی ہیں وہ اس بات سے مطابقت رکھتی ہیں کہ ابو عاقلہ کو ہلاک کرنے اور اس کے ساتھی علی صمودی کو زخمی کرنے والی گولیاں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی طرف سے آئیں نہ کہ مسلح فلسطینیوں کی فائرنگ سے۔ UN on Slain Al Jazeera Journalist
الجزیرہ کی صحافی شرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فورسز نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین پر فوجی چھاپے کی کوریج کر رہی تھیں۔ ان کے قتل سے فلسطینیوں اور دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہزاروں افراد نے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ان کے جنازے میں شرکت کی۔ اسرائیلی پولیس نے جنازے میں شریک افراد پر حملہ کیا، جس سے ابو عاقلہ کا تابوت تقریباً زمین پر گر گیا۔ متعدد عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے تجربہ کار رپورٹر کو ہلاک کر دیا۔ کئی میڈیا اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیقات بھی اسی نتیجے پر پہنچی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
شمدسانی کے مطابق، OHCHR کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے اسرائیلی حکام سے ابو عاقلہ کے قتل کی مجرمانہ تحقیقات شروع کرنے پر زور دیا۔ اسرائیلی حکام، بشمول وزیراعظم نفتالی بینیٹ، نے ابتدائی طور پر یہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ فلسطینی بندوق بردار ابو عاقلہ کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ تاہم، اسرائیلی بعد میں پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ وہ اس امکان کو رد نہیں کر سکتے کہ یہ گولی کسی اسرائیلی فوجی نے چلائی تھی۔ اسرائیل نے ابھی تک یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا ہے کہ آیا کسی کو اس قتل پر مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا یا نہیں اور اس نے اندرونی تحقیقات سے سامنے آنے والے نتائج کو بھی جاری نہیں کیا ہے۔
الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے 26 مئی کو اعلان کیا تھا کہ اس نے اس معاملے میں انصاف کے لیے ایک قانونی ٹیم تشکیل دی ہے جو ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے رجوع کرے گی۔ اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں فلسطینی صحافیوں کو نشانہ بنانے پر آئی سی سی میں دائر کیس پر کام کرنے والے وکلا نے بھی کہا ہے کہ وہ ابو عاقلہ کے قتل کو بھی اپنے کیس میں شامل کریں گے۔