اسلام آباد میں واقع ایک تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) نے کہا کہ دہشت گرد حملوں کا سلسلہ نئے سال میں بھی جاری رہا جس سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ خیبرپختونخوا ہوا۔ حالانکہ جنوری میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی لیکن ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ جس کی بڑی وجہ پیر کے روز پشاور پولیس لائنز میں ہونے والا خود کش حملہ تھا جس کے نتیجے میں 101 افراد ہلاک ہوگئے۔
جنوری میں 2 خودکش حملے ہوئے جس میں ایک پشاور کی مسجد میں جبکہ دوسرا قبائلی ضلع خیبر میں ہوا۔ ساتھ ہی سکیورٹی فورسز نے 52 ملزمان کو گرفتار اور 40 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر کے متعدد حملے ناکام بھی بنائے جس میں زیادہ تر کو پنجاب میں گرفتار کیا گیا، ہلاکتیں زیادہ تر خیبرپختونخوا میں ہوئیں۔ دسمبر کے مقابلے جنوری 2023 کے دوران صوبہ خیبرپختونخوا میں نہ صرف دہشت گرد حملوں کی تعداد 17 سے بڑھ کر 27 ہوگئی بلکہ اس کے نتیجے میں ہوئی اموات کی تعداد بھی 17 سے بڑھ کر 116 ہوگئی۔ اس کے علاوہ صوبے میں 232 افراد زخمی بھی ہوئے جس میں زیادہ تر وہ پولیس اہلکار شامل تھے جو پشاور دھماکے میں زخمی ہوئے۔
افغانستان سے متصل اس صوبے میں دہشت گردوں نے زیادہ تر پولیس کو نشانہ بنایا۔ خیبرپختونخوا میں لکی مروت سب سے زیادہ شورش زدہ اضلاع میں سے ایک تھا جہاں جنوری کے دوران سب سے زیادہ دہشت گرد حملے ہوئے جس کے بعد ڈیرہ اسمٰعیل خان اور پشاور آتے ہیں۔ جیسا کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں گزشتہ کچھ ماہ کے دوران بڑے دہشت گردانہ حملے یوئے تاہم قبائلی اضلاع میں پر تشدد کارروائیوں میں کمی دیکھی گئی اور سابق فاٹا میں صرف 3 حملے ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:
تھنک ٹینک کا کہنا تھا کہ دسمبر 2022 میں سابق فاٹا میں 11 دہشت گرد حملے ہوئے، سکیورٹی فورسز کی جانب سے قبائلی اضلاع میں کیا گیا آپریشن حملوں میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔ تاہم بلوچستان میں جنوری کے دوران دہشت گرد حملوں میں کمی آئی اور گزشتہ برس دسمبر میں ہوئے 17 حملے کے مقابلے گزشتہ ماہ صرف 9 حملے ہوئے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی 17 سے کم ہو کر 7 جبکہ زخمیوں کی تعداد 48 سے 20 رہی۔
دوسری جانب پنجاب میں 4 دہشت گرد حملے ہوئے جس میں 3 سیکیورٹی اہلکار مارے گئے جبکہ 2 کم درجے کے حملے سندھ میں ہوئے جس میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔ سب سے بڑا حملہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تقریباً 2 درجن دہشت گردوں نے میانوالی کے مکڑوال پولیس اسٹیشن پر کیا جسے ناکام بنا دیا گیا لیکن اس سے خیبرپختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر مسلح عسکریت پسندوں کو متحرک کرنے کے لیے کالعدم تنظیموں کی عددی طاقت اور صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔ (یو این آئی)