رملہ: اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں نو غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کی منظوری دی ہے، جس پر فلسطینی اتھارٹی (PA) کی جانب سے مذمت کی گئی ہے اور اسرائیل کے اس اقدام کو اپنے لوگوں کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا ہے۔ اتوار کو وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے دفتر سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مزید ہاؤسنگ یونٹس علیحدہ، موجودہ غیر قانونی بستیوں میں تعمیر کیے جانے کا امکان ہے۔
وہیں فلسطینی حکام نے اسرائیلی کابینہ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ فلسطینی صدارتی ترجمان نبیل ابو رودینہ نے کہا کہ اسرائیلی کابینہ کی طرف سے نو غیر قانونی بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ عرب اور بین الاقوامی کوششوں کے لیے ایک چیلنج اور فلسطینی عوام کے لیے اشتعال انگیزی ہے۔ انہوں نے ایک پریس بیان میں کہا کہ یہ یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی قراردادوں اور دستخط شدہ دوطرفہ معاہدوں کے تحت ناقابل قبول ہیں اور اس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی کابینہ کے فیصلے فلسطینیوں کے خلاف کھلی جنگ ہے۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کا تازہ ترین فیصلہ تمام سرخ لکیروں کو عبور کرتا ہے اور امن عمل کی بحالی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
قابل ذکر ہے کہ نصف ملین سے زیادہ اسرائیلی فلسطینی سرزمین پر تعمیر کی گئی 200 سے زائد بستیوں میں رہتے ہیں جنہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی آبادکاری کی توسیع سے دو ریاستی حل کے حصے کے طور پر مستقبل کی فلسطینی ریاست کے استحکام کو خطرہ ہے۔
اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرنے والے امریکہ نے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن گزشتہ ماہ اس کے سفیر نے کہا تھا کہ ملک اسرائیلی بستیوں کی اجازت کی مخالفت کرتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بستیوں کے خلاف خیالات کا اظہار بھی کیا تھا، جبکہ اقوام متحدہ نے متعدد قراردادوں اور ووٹوں میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی مذمت کی ہے۔