عراقی مظاہرین نے ایک بار پھر بااثر شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی حمایت کے اظہار میں دارالحکومت بغداد کے گرین زون کی طرف جانے والی تمام رکاوٹوں کو توڑ کر عراقی پارلیمنٹ Iraqi parliament میں داخل ہوگئے اور نئے وزیر اعظم کی نامزدگی کے لیے ہونے والے اجلاس کو معطل کر دیا۔ ہفتے کی صبح مظاہرین گرین زون علاقے کے اطراف میں لگائی گئی تمام بڑی رکاوٹوں پر چڑھ گئے جس رکاوٹوں کے ذریعہ سرکاری عمارتوں اور غیر ملکی سفارت خانوں کی تحفظ فراہم کی جاتا ہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے اور انھیں گرین زون علاقے سے دور رکھنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے گولے بھی داغے جس میں کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے لیکن وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کے میڈیا آفس نے ایک بیان جاری کیا جس میں سکیورٹی افسران سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ریاستی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دیں۔Political Crisis in Iraq
اس سے قبل بدھ کے روز جب ایک بڑا ہجوم پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب جمع ہوگیا تھا تو سکیورٹی فورسز نے پیچھے ہٹ کر بڑے ہجوم کو بغیر کسی رکاوٹ کے پارلینمٹ میں داخل ہونے دیا۔مظاہرین ایک سابق وزیر اور سابق صوبائی گورنر محمد شیعہ السوڈانی کی امیدواری کی مخالفت کر رہے ہیں، جو ایران کے حامی رابطہ کاری فریم ورک کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیے گئے ہیں۔ السوڈانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ووٹنگ ہفتے کے روز ہونا تھی لیکن بدھ کے واقعات کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا تھا۔ لیکن مظاہرین ہفتے کے روز ایک بار پھر جمع ہوئے کیونکہ انہیں پارلیمنٹ پر اعتماد نہیں تھا مظاہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کاروائی معطل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ووٹنگ بند دروازوں کے پیچھے نہیں چل سکتی۔
مظاہرین میں سے ایک حیدر نے کہا کہ ہم یہاں ایک انقلاب کے لیے آئے ہیں،"ہم بدعنوان نہیں چاہتے، ہم نہیں چاہتے کہ وہ لوگ واپس آئیں جو 2003 سے اقتدار میں ہیں... انہوں نے صرف ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: Protesters in Iraqi Parliament: عراق میں سیاسی بحران، پارلیمنٹ پر مظاہرین کا قبضہ
عراق کئی ماہ سے سیاسی تعطل کا شکار ہے، جس کا ابھی تک کوئی سیاسی حل نظر نہیں آ رہا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں ہوئے عام انتخابات میں الصدر کے سیاسی اتحاد نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ تاہم دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا یہ ملک طویل مدت سے ایک باقاعدہ وزیراعظم کے بغیر ہے۔ مذاکرات کے تعطل کے بعد، الصدر نے پارلیمنٹ سے اپنا بلاک بھی واپس لے لیا اور اعلان کیا کہ وہ حکومت بنانے کے لیے مذاکرات سے باہر ہو رہے ہیں۔
مقتدی الصدر اور ان کے حامی شیعہ ہیں، اس کے باوجود وہ محمد السودانی کی جماعت 'کوارڈینیشن فریم ورک' جیسی ایران نواز دوسری شیعہ جماعتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک بار مقتدی الصدر کے حامی سن 2016 میں اس وقت کے وزیر اعظم حیدر العبادی سے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر داخل ہوگئے تھے۔