تہران: پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد ہونے والے مظاہرے اور ملک میں پیدا ہونے والی بدامنی پر قابو پانے کی کوشش کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ایرانی سکیورٹی فورسز نے کئی کرد شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کی 16 ستمبر کو ہوئی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جو 1979 کے انقلاب کے بعد سے اس کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔Iran Protests
بی بی سی کے مطابق مہسا امینی کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ وہ مظاہروں میں شامل نہ ہوں۔ عراق کے کردستان کے علاقے میں ان کے کزن عرفان مرتزئی نے کہا کہ 'ہمارے خاندان پر ایرانی کے حکام کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ہے، اس لیے ہم ایران سے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں یا چینلز سے بات نہیں کرتے اور نہ ہی بیرونی دنیا میں کسی کو ان کے انتقال کے بارے میں مطلع کرتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: Iran State TV Hacked ایران کا سرکاری ٹی وی چینل ہیک، حکومت مخالف پیغام نشر
انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے افراد کو ملنے والی دھمکیوں نے ان کی حفاظت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہ ایران کے تشدد کی زد میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ حکومت کے عہدیداروں نے ہمیں انسٹاگرام کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے دھمکیاں دیں اور ایران میں اہل خانہ سے کہا ہے کہ اگر وہ احتجاج میں شامل ہوئے تو انہیں قتل کیا جا سکتا ہے، خود مجھے فون پر بہت سی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر وہ مجھے شہر میں دیکھیں گے تو اغوا کر کے قتل کر دیں گے۔
دریں اثنا ایرانی حکام نے مہسا امینی کی موت پر مظاہروں کی حمایت کرنے پر علی دائی کا پاسپورٹ ضبط کرنے کے بعد انہیں واپس کردیا جس کی تصدیق ملک کے فٹ بال لیجنڈ نے پیر کے روز کی۔ دائی نے مظاہروں کے آغاز کے بعد میڈیا سے اپنے پہلے تبصرے میں کہا کہ بیرون ملک سے واپسی پر، میرا پاسپورٹ تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میرے اہل خانہ اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں پولیس نے ضبط کر لیا تھا۔ (یو این آئی)